کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 102
ایک یا ایک سے زائد راوی پے درپے حذف ہوں ۔[1] ۲۔ (اصطلاحی) تعریف کی شرح: (مذکورہ تعریف میں ’’مبدأ الإِسناد‘‘ کا لفظ آیا ہے) ’’مبدأ السند‘‘ سے مراد سند کی وہ نچلی جانب ہے جو ہماری طرف (کے راویوں ) کی ہے اور یہ (حدیث کی کتاب کے اُس) مؤلف کا شیخ ہے (جس نے اس کتاب کو تالیف کیا اور ترتیب دیا ہو جس میں یہ اسناد درج ہے) اور اسے ’’اوّل السند‘‘ (سند کی ابتداء) بھی کہتے ہیں اور اس کو ’’مبدأ السند‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ ہم حدیث کی قرات کی ابتداء یہیں سے کرتے ہیں ۔ ۳۔ حذفِ اسناد کی چند صورتیں : الف: …حذف اسناد کی ایک صورت یہ ہے کہ سرے سے ساری سند ہی کو حذف کر دیا جائے۔ پھر مثلاً یوں کہا جائے، ’’قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم کذا‘‘ یعنی ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا ہے‘‘ کہا جائے۔(دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:) [2] ب: …حذف اسناد کی ایک صورت یہ ہے صرف صحابی رضی اللہ عنہ یاصحابی رضی اللہ عنہ اور تابعی رحمہ اللہ کے نام کو چھوڑ کر باقی ساری کی ساری سند کو حذف کردیا جائے۔ [3] ۴۔ حذفِ اسناد کی مثال: اس کی مثال وہ حدیث ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’بَابُ مَا یُذْکَرُ فِی الْفَخِذِ‘‘ کے مقدمہ میں ذکر کی ہے۔ جو یہ ہے: ’’وَقَالَ اَبُوْ مُوْسٰی رضی اللّٰه عنہ ‘‘، غطَّی النَّبِیُّ رُکْبَتَہٗ حِیْن دَخَلَ عُثْمَانُ ‘‘[4] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب ’’حجرئہ مبارکہ میں ‘‘ داخل ہوئے تو جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رانوں کو ڈھانک لیا۔‘‘ یہ حدیث ’’معلَّق ‘‘ ہے، کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف صحابی رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر اس کی تمام اسناد حذف کرکے اس کو ذکر کیا ہے اور وہ صحابی حضرتِ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ ہیں ۔ ۵۔ حدیث معلّق کا حکم: حدیث معلّق مردود ہے، کیوں کہ اس میں صحتِ حدیث کی شروط میں سے ایک شرط مفقود ہے اور وہ شرط ’’اتصالِ سند‘‘ ہے وہ یوں کہ یہاں ایک یا زیادہ راوی حدیث کی اسناد سے حذف ہیں ، مزید یہ کہ محذوف راوی کا حال بھی ہمارے علم میں نہیں ۔
[1] علوم الحدیث لابن الصلاح، ص: ۳۴(طحّان) اس وصف کو ’’تعلیق‘‘ (علوم الحدیث: ۱۳۱) اور ایسی حدیث اور اسناد کو مُعَلَّق کہتے ہیں ۔ [2] عام طور سے احادیث کے نقل و بیان میں یوں ہی ہوتا ہے (علوم الحدیث، ص: ۱۳۱) [3] شرح نخبۃ الفکر ص۴۲ (طحّان) اور ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ کی سب روایات میں ایسا ہی کیا گیا ہے (علوم الحدیث، ص: ۱۳۱) [4] البخاری /کتاب الصلوٰۃ ج۱ ص۹۰ (طحّان)