کتاب: شرح تیسیر مصطلح الحدیث - صفحہ 100
مقصد دوم
سند میں سقوط کی وجہ سے ’’خبر مردود‘‘ کا بیان
۱۔ سند سے سقوط کا معنی:
سند سے سقوط کا مطلب یہ ہے کہ ایک یا اکثر راوی کا سند میں ذکر نہ ہونے سے سند کا سلسلہ ٹوٹ جائے چاہے ایسا کسی راوی سے عمداً ہوا ہو یا غیر عمداً اور یہ سقوط (یعنی کسی راوی کا ذکر ہونے سے رہ جانا اور سلسلہء سند کا ٹوٹ جانا) سند کے شروع سے ہو یا آخر سے یا درمیان سے، اور یہ سقوط چاہے ظاہری ہو یا خفی ہو (اس کو سند سے سقوط کہتے ہیں )۔
۲۔سقوط کی اقسام:
سند سے سقوط اپنے ظہور اور خفاء کے اعتبار سے دو (بنیادی) اقسام میں منقسم ہوتا ہے جو یہ ہیں :
الف: …سقوطِ ظاہری: یہ سقوط کی وہ قسم ہے جس کا علم اور معرفت حضرات ائمہ کرام اور علوم حدیث میں مشغول رہنے والے سب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔(دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ سقوط کی اس قسم کی معرفت کے لیے نہ تو زیادہ بحث و تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ازحد فکر و نظر اور تلاش و جستجو کی احتیاج ہی ہوتی ہے) اور سند سے سقوط کی اس قسم کی معرفت (بہت آسان ہے اور وہ) یوں حاصل ہوتی ہے کہ راوی اور اس کے شیخ کے درمیان ملاقات ثابت نہیں ہوتی (کہ راوی جن کو اسناد میں اپنا شیخ ظاہر کرتا ہے اور ان سے اپنا سماع ثابت کرتا ہے، درحقیقت اس راوی سے ان کی ملاقات ثابت نہیں ہوتی) اور اس کی دو صورتیں ہیں :
یا تو راوی نے اپنے شیخ کا زمانہ نہیں پایا ہوتا(دوسرے لفظوں میں دونوں کا زمانہ ایک نہیں ہوتا)
یا راوی نے شیخ کا زمانہ تو پایا ہوتا ہے لیکن دونوں کو ایک جگہ اکٹھے ہونے کی نوبت نہیں آئی ہوتی اور نہ اس راوی کو مذکورہ شیخ سے (اس حدیث کی مذکورہ اسناد کے ساتھ حدیث کی روایت کی) ’’اجازت ہوتی ہے اور نہ ’’وِجَادۃ‘‘ ہی حاصل ہوتی ہے۔[1]
[1] مولف موصوف اجازۃ اور وجادۃ کی تعریف کرتے ہوئے حاشیہ میں رقم طراز ہیں : ’’اجازۃ‘‘ یہ (کسی کو حدیث) روایت کرنے کا اِذن دینا ہے اور کبھی راوی کو یہ اجازت اس شیخ سے بھی حاصل ہوجاتی ہے جِس سے اس کی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی۔ اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ کسی موقع پر شیخ (اذن عام اور کھلی اجازت دیتے ہوئے) یوں کہے کہ ’’میں اپنے زمانہ کے لوگوں کو ان سب روایات (کے آگے بیان کرنے) کی اجازت دیتا ہوں جو مجھ سے سنی گئی ہیں (خواہ کسی نے مجھ سے براہ راست سنی ہیں اور چاہے بالواسطہ سنی ہیں )۔
’’وِجَادَۃ‘‘ (واو کے کسر کے ساتھ) یہ راوی کا اپنے شیوخ میں سے کسی شیخ کی جس کی لکھائی اور تحریر کو وہ پہچانتا ہے، کتاب کو حاصل کرنا اور پھر راوی کا اس کتاب کی روایات کو اپنے شیخ سے بیان کرنا ہے۔ اجازۃ اور وجادۃ کی مفصّل بحث آگے ’’باب طرق التحمل و صِیَغ الاداء‘‘ میں آجائے گی۔(طحّان)