کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 72
کی ہے اگرتم نے ان کے ساتھ صحبت نہیں کی تو کوئی گناہ نہیں اور تمہارے حقیقی بیٹوں کی بیویاں(یعنی بہوئیں)اور اس بات کو بھی حرام کر دیا گیا کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو البتہ جو گزر چکا سو گزر چکا، بے شک اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ اور پاک دامن عورتیں بھی سوائے یہ جو تمہاری لونڈیاں ہیں یہ تمہارے لیے لکھ دیا ہے ان کے علاوہ سب تمہارے لیے حلال ہیں۔ ‘‘
2۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کسی بات کی طرف اشارہ فرما دیتے ہیں۔اس اشارے میں جو چیزیں ہوں گی وہ ساری وضاحت ہی ہوگی،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃْ﴾(النسائ:113)
’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر قرآن اور حکمت نازل فرمائی۔ ‘‘
یہاں حکمت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اورآپ کے احوال ہیں یعنی ان کی سنت کو حکمت سے تعبیر کیا گیا۔چنانچہ سنت قرآن مجید کی وضاحت کرنے والی ہے۔
دوسری جگہ ان الفاظ میں ذکر کیا:
﴿فَسْئَلُوْا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾(الانبیائ:7، النحل:43)
’’جو کسی بات کی حقیقت سے واقف ہوں تم ان سے سوال کرو جس بات سے تم ناواقف ہو۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ہر چیز کے متعلق ان کے واقف کاروں سے ہی پوچھنا چاہیے،اس سلسلے کا ایک واقعہ منقول ہے:
ایک مسلمان عالم کے پاس ایک عیسائی آیا،اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ قرآن مجید کے بارے میں اعتراضات اور سوالات کرے گا،وہ عالمِ دین اس وقت کھانا کھا رہے تھے۔ عیسائی کہنے لگا کہ یہ کھانا کیسے تیار ہوتا ہے ؟اس کا ذکر کہاں ملے گا ؟عالمِ دین نے کھانا پکانے والے باورچی کو بلایا اسے کہا کہ کھانا پکانے کا طریقہ بتاو، چنانچہ اس نے سارا طریقہ بیان کیا۔ عالم دین نے فرمایا کہ قرآن مجید میں بھی اسی طرح منقول ہے۔ عیسائی بڑا حیران ہوا