کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 70
نہیں آئی،چنانچہ ان کے سامنے آیتِ قرآنیہ اور دلائلِ شرعیہ پیش کرتے ہیں۔
2۔ ان مشرکین اور کافروں کے خلاف ہوتا ہے جو خالص مشرک اور کافر ہیں۔ ان کے ساتھ تلوار اور اسلحہ سے لیس ہو کر جہاد کیا جاتا ہے یہ لوگ اعلانیہ کفر کرتے ہیں۔ ان ہر دوقسم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿یٰاَیُہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْہِمْ وَمَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرِ﴾(التحریم:9)
’’اے نبی! کفار سے جہاد کیجئے اور منافقین سے بھی جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے،ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘
خالص اور پکے کافر کے خلاف بھی تلوار سے لیس ہونے سے پہلے انہیں اسلام کی دعوت پیش کی جائے، اگر وہ اس دعوت کو قبول نہ کریں تو پھر ان کے خلاف میدان میں جنگ ہوگی۔
امت اسلامیہ کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کے دفاع کے لیے ہر طرح مسلح ہوں، اگر فکری محاذ سے حملہ ہوتا ہے تو مضبوط اور روشن دلائل سے دفاع کیا جائے، اسی طرح اگر معاشی و اقتصادی حملے ہوتے ہیں تو اسی میدان میں اس کا جواب دیا جائے اور جب دشمن مسلح ہو کر حملہ آور ہو تو اس کے ساتھ میدان کارزار میں مقابلہ کرنا چاہیے۔
لہٰذا جو مسلمان موحد دلائل سے پوری طرح آراستہ نہ ہو اسے اپنے دلائل کو پیش کرنے نیز مد مقابل کے پیش کردہ اعتراضات کو ردکرنے کی اچھی صلاحیت نہ ہو تو ایسے فرد سے یہ خوف رہتا ہے کہ مقابلہ کے وقت ناکام ہو جائے گا۔ لہٰذا اپنی مناظرانہ صلاحیت کو مکمل کرکے میدان میں آئے کیوں کہ مناظرہ میں دو باتیں ضروری ہوتی ہیں:
1۔ اپنے دلائل کا اثبات
2۔ مخالف کے دلائل کی تردید۔ جب تک بھر پور صلاحیت نہ ہو یہ دونوں کام ناممکن ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے ذریعہ امت اسلامیہ پر احسان فرمایا ہے:
﴿لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بِّیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ