کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 62
﴿اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَہُمْ اٰلِہَۃ’‘ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْم’‘ تَجْہَلُوْنَ۔اِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ مُتَبَّر’‘ مَّا ہُمْ فِیْہِ وَبٰطِل’‘ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾
(الاعراف:138۔139)
’’ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کر دو جیسا ان کا ایک معبود ہے، موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم جاہل لوگ ہو۔ یہ اپنے انہی اعمال میں تباہ ہونے والے ہیں اور جو کر رہے ہیں وہ باطل ہے۔‘‘
معلوم ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام نے اس مطالبہ کو جہالت سے تعبیر فرمایا، جب کوئی آدمی یہ سمجھتا ہو کہ میں توحید کا مفہوم جانتاہوں تو اس سے بالخصوص، ایسی جہالت کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا خود اپنے متعلق انسان کو ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے۔
بعض لوگ فلسفیانہ موشگافیاں کرتے ہوئے کلمہ: لا الہ الا اللہ کا ایسا مفہوم بیان کرتے ہیں جو صرف ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ مشرکین مکہ جنہوں نے سب سے پہلے اس کا انکار کیا تھا وہ بھی اس کلمہ کو ان مفاہیم میں نہیں سمجھتے تھے۔ وہ مسلمانوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ہی کلمہ کو سمجھتے تھے۔
واعلم أنہ سبحانہ من حکمتہ لم یبعث نبیًّا بہذا التوحید الا جعل لہ أعداء کما قال اللّٰہ تعالیٰ:﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُحْزُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا﴾[الانعام:112]
وقد یکون لأعداء التوحید علوم کثیرۃ، وکتب وحجج؛ کما قال اللّٰہ تعالیٰ:﴿فَلَمَّا جَآئَ تْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾[غافر:83]