کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 61
رسول کے مذکورہ حکم ان نابالغ نوجوانوں پر بھی ثابت ہوتے ہیں یا نہیں!یہ اقوال تین طرح کے ہیں،صحیح وہ ہے جس کے لیے دلائل قرآن مجید میں موجود ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً﴾(الاسرائ:15) ’’ہم اس وقت تک کسی کو عذاب نہیں کرتے جب تک کہ کوئی رسول نہ بھیج دیں۔ ‘‘ ﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ م بَعْدَ الرُّسُوْلْ﴾(النسائ:165) ’’یہ رسول خوشخبری دیتے ہیں، ڈراتے ہیں تاکہ اللہ کے پاس لوگوں کے لیے کوئی حجت باقی نہ رہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ اب کسی کے پاس اللہ کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہ گیا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے رسول بھیج دیے ہیں۔‘‘ [1] خلاصہ بحث یہ ہے کہ کتاب و سنت اور سلف صالحین کے اقوال و دلائل کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایسا ناواقف آدمی معذور ہے اوراس کا عذر قبول کیا جائے گا جب وہ اپنی زبان اور اپنے عمل میں کوئی کفریہ کام کرے یا بولے،جیسے اگر کوئی نافرمانی والا کام کرتایا جملہ بولتا ہے تو اس کی لا علمی کو بطور عذر قبول کیا جاتا ہے۔ فاضل مؤلف نے اس موقع پر نہایت ضروری مسائل ذکر کیے ہیں: مسلمان کو ہمیشہ توحید کا مفہوم اچھی طرح سمجھنا اور یاد رکھنا چاہیے نیز اپنے اقوال و اعمال کی نگرانی کرے تاکہ بے شعوری، غلط فہمی اور جلد بازی میں بھی مسلمان شرکیہ اعمال و افعال سے محفوظ رہے۔ غور کیجئے! موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا مطالبہ کیا تھا:
[1] ) صحیح بخاری کتاب التوحید، باب قول النبی صلی اللّٰهُ علیہ وسلم لا شخص غیر من اللّٰہ :۷۴۱۶۔ صحیح مسلم ، ح:۱۴۹۹