کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 60
ایک جگہ لکھتے ہیں:’’ یہی بات امام احمد جیسے ائمہ سے بھی منقول ہے۔ ‘‘ ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’وہ خارجی جو تیر کی طرح دین سے نکل جائیں گے ان کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ ان سے جنگ کی جائے، چنانچہ امیر المومنین علی بن ابی طالب نے ان سے جنگ کی ہے۔ نیزمسلمانوں کے ائمہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین وغیرہ سب ان سے جنگ کرنے کو درست سمجھتے تھے۔ علی بن ابی طالب اور سعد بن ابی وقاص وغیرہ نے بھی انہیں کافر نہیں کہا۔ بلکہ اس جنگ کے باوجود انہیں مسلمان سمجھتے تھے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے اس وقت جنگ کی ابتدا کی جب خارجیوں نے ناحق خون بہانا شروع کیا، مسلمانوں کے مال و جان پر حملہ آور ہوئے چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اقدامِ جنگ ان کی سرکشی ختم کرنے کے لیے تھا،نہ کہ ان کو کافر سمجھتے ہوئے۔ ‘‘ یہی وجہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کی عورتوں کو قیدی نہیں بنایا، ان کے مال کو مالِ غنیمت نہیں سمجھا حالاں کہ ان لوگوں کی گمراہی قرآن و سنت سے ثابت ہو چکی تھی۔ جب صورتحال یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کہ’’ ایسے لوگوں کے ساتھ جنگ کی جائے‘‘ اس سب کے باوجود ان کو کافر نہیں کہا گیا تو پھر ایسے عقائد و نظریات رکھنے والے لوگ جن کے بارے میں صحیح اور غلط مسائل غیر واضح ہیں۔کسی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایک دوسرے کو کافر کہیں اور ایک دوسرے کے مال و جان کو حلال سمجھتے ہوئے ان پر حملہ آور ہوں اگرچہ ان میں کوئی واضح بدعت موجود ہو۔ جب یہ لوگ دوسروں کو کافر کہیں گے تو ان کی یہ بدعت اُن کی نسبت زیادہ خطرناک ہوگی۔ عام طور پر اس قسم کے لوگ اپنے اختلافات کے حقائق سے جاہل اور ناواقف ہوتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک موقع پر فرماتے ہیں: ’’ جب مسلمان کسی دلیل کی بنیاد پر کسی سے جنگ و قتال میں کود جائے یا کسی دلیل کی بنیاد پر کافر کہے تو کہنے والے کو کافر نہیں کہاجائے گا۔‘‘ ایک موقع پر فرماتے ہیں: ’’علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اللہ اور اس کے