کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 59
کے باوجود فقہائے کرام نے ان کے کفر کا فیصلہ نہیں کیا کیونکہ وہ ایساکام کرنے کے لیے قرآن و حدیث سے دلائل پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح ہر حرام کام کو جب حلال سمجھا جائے اور اس کی بنیاد کسی دلیل پر ہو تو اس کا حکم بھی اسی طرح ہوگا جو ہم نے درج بالا سطور میں ذکر کیا۔‘‘ [1]
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’خارجیوں کی بدعت یہ تھی کہ انہوں نے قرآن مجید کے معنیٰ و مفہوم کو غلط سمجھا ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ قرآن مجید کی مخالفت کریں لیکن انہوں نے قرآن مجید کی آیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ایسے مفہوم میں لیا جن کے لیے وہ آیات اور احادیث دلالت نہیں کرتی تھیں،چنانچہ انہوں نے یہ سمجھا کہ گناہ کرنے والے افراد کو کافر قرار دیا جائے۔‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پر فرماتے ہیں: ’’خارجیوں نے سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی حالانکہ قرآن مجید نے اس سنت کی پیروی کا حکم دیا تھا، قرآن مجید نے ایمان والوں کو دوست بنانے کا حکم دیا تھا لیکن انہوں نے اہلِ ایمان کو کافر کہا۔اسی طرح قرآن مجید میں مذکور مشتبہ آیات کی تلاش میں رہے، قرآن سننے کے بعد اس میں تاویل کرنے لگے ایسی تاویل جو اہل قرآن یعنی صحابہ و تابعین کے ہاں معروف نہ تھی اس طرح یہ علم میں کمزور ہو گئے۔ نیز اتباعِ سنت میں بھی پیچھے رہے۔ لہٰذا یہ مسلمانوں کی اس جماعت کے پاس نہ بیٹھتے تھے جو لوگ حقیقت میں قرآن مجید کو صحیح مفہوم کے ساتھ سمجھتے تھے۔ ‘‘
دوسری جگہ اس طرح لکھاہے: ’’تمام ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ خارجی لوگ غلط اور گمراہ تھے۔ لیکن آیا وہ کافر تھے یا نہیں ؟اس بارے میں دو مشہور قول موجود ہیں۔بالخصوص حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سمیت کوئی بھی صحابی ایسانہ تھا جو ان خارجیوں کو کافر کہتا ہو،بلکہ یہ سب لوگ ان کو ظالم اور حد سے گزرنے والے سمجھتے تھے،جیسا کہ یہ بات مختلف روایات میں منقول ہے کہ صحابہ کرام نے ان کے متعلق ایسے ہی ملتے جلتے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ‘‘[2]
[1] ) المغنی :۸/۱۳۱۔
[2] ) مجموع الفتاویٰ : ۱۳/۳0، ۲۱0و۲۸/۵۱۸، ۷/۲۱۷۔