کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 58
اس کی لگام کو پکڑے اور اسی خوشی کی کیفیت میں وہ ان الفاظ میں پکارے: اے اللہ میں تیرا رب اور تو میرابندہ ہے تو اس شخص نے اپنی بے انتہا خوشی کی وجہ سے اپنی زبان سے غلط کلمہ نکالا۔اللہ تعالیٰ اس شخص کے رجوع سے بہت زیادہ خوش ہوتاہے۔‘‘[1]
ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ انسان کفر کے اطلاق میں تاویل کرتا ہو یعنی وہ اس کام کو درست سمجھ کر کر رہا ہو، چنانچہ یہ بھی اس کے لیے ایک رکاوٹ ہوگی۔کیوں کہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ گناہ اور دینِ اسلام کی مخالفت ہے لہٰذا یہ شخص بھی درج بالا آیت کریمہ لیس علیکم جناح کے مضمون میں شامل سمجھا جائے گا۔ اس لیے بھی کہ اس کی محنت اور کوشش کا یہی نتیجہ ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾(البقرہ:286)
’’اللہ کسی انسان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔ ‘‘
مغنی کے مؤلف فرماتے ہیں: ’’ اگر کوئی شخص معصوم لوگوں کا مال و جان حلال سمجھتے ہوئے بغیر کسی واضح دلیل اور شبہ کے حلال سمجھے تو یہ شخص بھی کافر ہوگا۔ اگر دلیل کے ساتھ کوئی ایسا کام کرے جیسے خارجیوں نے کیا تھا۔ اس بات کا تذکرہ ہم نے دوسرے مقام پر کیا ہے کہ اکثر فقہا ء ان لوگوں کو کافر نہیں کہتے اگرچہ وہ مسلمانوں کے مال و جان کو حلال سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوئے ہیں، ان لوگوں کی نیت یہ تھی کہ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب ورضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مزید فرماتے ہیں: ’’خارجیوں کا یہ موقف معروف ہے کہ وہ اکثر صحابہ کرام اور تابعین رحمہ اللہ کو بھی کافر سمجھتے ہیں، اسی طرح ان کا مال و جان حلال سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوئے اور ان کا یہ نظریہ تھا کہ ہم ان کو قتل کرکے اللہ رب العزت کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں،اس
[1] ) صحیح بخاری ،کتاب الدعوات ، باب التوبہ ح:۶۳0۹۔ صحیح مسلم ،کتاب التوبہ ح:۲۷۴۷۔