کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 56
ہے کہ اگر میں نے ان کاموں کا ارتکاب کیا تو میں کافر ہو سکتا ہوں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تََبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا﴾
(النساء:115)
’’جو شخص رسول کی مخالفت کرے جب کہ اس کے سامنے ہدایت واضح ہو چکی ہو اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی دوسرے راستہ کو تلاش کرے، ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھررہا ہے او ر ہم اس کو جہنم تک پہنچائیں گے یہ ٹھکانا برا ہے۔ ‘‘
اسے آگ کی سزا اس وجہ سے دی جا رہی ہے کہ اس آدمی کے سامنے ہدایت اور عقیدہ واضح ہو چکا ہے لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر رہا ہے۔یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ آیا اس شخص کو عقیدے کی مخالفت اور اس کا انجام بتانا ضروری ہوگا یا صرف صحیح اور غلط عقیدے کا اسے علم ہونا چاہیے اگر چہ اس کے انجام سے وہ شخص ناواقف ہی ہو؟
جواب:… اگر کسی شخص کو اس بات کا علم ہے کہ عقیدے کی رو سے یہ بات غلط ہے تو یہی کافی ہے کہ اس پر مخالفت کا حکم لگایا جا ئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں دن کے وقت صحبت کرنے والے پر کفارہ لازم قرار دیا تھا۔[1]
کیونکہ اس آدمی کو یہ بات معلوم تھی کہ ایسا کرنا غلطی ہے اگرچہ اس کو اس کے انجام اور کفارے کا علم نہ تھا۔ اسی طرح جو شخص شادی شدہ ہو کر بدکاری کرے اگرچہ اس کو صرف اتنا علم ہے کہ بدکاری کرنا حرام ہے پھر بھی اس کو رجم کر دیا جائے گا گو وہ اس انجام سے بے خبر ہی کیوں نہ ہو۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان اس طرح کے جرم کے انجام سے باخبر ہو تو وہ ارتکاب ہی نہیں کرتا۔
کسی شخص کو کافر قرار دینے میں ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ اس شخص کو اس
[1] ) بخاری الصوم اذا جامع فی رمضان :۱۹۳۶۔