کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 55
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’اگر تو وہ کافر ہوا تو ٹھیک ورنہ یہی بات اس کے اوپر لگے گی۔‘‘[1] ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلاتا ہے یا اس کو اللہ کا دشمن کہہ کر پکارتا ہے حالانکہ وہ ایسا نہ تھا تو یہ چیز خود اس کے اوپر لگے گی۔‘‘[2] یہ دوسری صورت بہت خطرناک ہے کہ اس میں انسان کسی کو کافر کہنے کے بعد خود کافر ہوسکتا ہے۔عام طور پر جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے تو گویا وہ خود اپنی نیکی پر خوش ہوتا اور دوسروں کے اعمال کو معمولی اور حقیر سمجھتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان میں خود پسندی اور دوسروں کی کم تری یعنی تکبر وغیرہ جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تکبر میری چادر، عظمت بھی میری چادر ہے۔جس نے مجھ سے ان میں سے کوئی بھی چھیننے کی کوشش کی میں اس کو آگ میں ڈالوں گا۔ ‘‘ [3] مسلمان کو کافر کہنے سے پہلے دو چیزیں دیکھنی ضروری ہیں۔ 1۔ آیا کتاب و سنت سے ایسے دلائل مہیا ہوتے ہیں جو اس کے کافرہونے کے لیے کافی ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف نہ ہو جائے۔ 2۔ آیا کسی فرد میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو بالخصوص اسے کافر کہنے کے لیے ضروری ہیں، نیز وہ تمام رکاوٹیں جو کسی مسلمان اور کافر کے مابین حائل ہوتی ہیں۔ نہایت ضروری شرط یہ بھی ہے کہ جسے کافر کہا جا رہا ہے وہ ان تمام باتوں سے واقف
[1] ) صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر : ۶0۔ [2] ) صحیح بخاری، کتاب الادب ، باب ما ینہی عن السباب ح:۶0۴۵۔ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافرح:۶۱۔ [3] ) صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، ح:۲۶۲0۔ الادب المفرد، ح:۵۵۲۔