کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 21
دین الٰہی کے چھوڑنے کی وجہ درحقیقت نیک لوگوں کے متعلق غلط عقائد ہیں۔
غلوکا معنٰی یہ ہے کہ انسان عبادات، معاملات اور کسی کی صفات بیان کرنے میں اس کی حدود سے تجاوز کر جائے۔ حد سے بڑھنا چار طرح ہوتا ہے:
1۔ انسان اپنے عقیدے میں حد سے تجاوز کرتا ہے، جس طرح متکلمین اللہ تعالیٰ کی صفات میں حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ نتیجتاً یہ لوگ یا تو اللہ تعالیٰ کی مثالیں بیان کرنے لگتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کر دیتے۔
حالانکہ اہل سنت والجماعت مسلمانوں کا مذہب درمیانی درجہ میں شمار ہوتا ہے، یعنی جو صفات اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے بیان کی ہیں ان کو تسلیم کیا جائے۔ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا چندصفات کو چھوڑنا، ان کی کیفیت بیان کرنا اور ان کی کسی طرح بھی مثالیں بیان کرنا، ان سب کاموں سے اہل سنت والجماعت اجتناب کرتے ہیں۔
2۔ عبادات میں حد سے تجاوز کرنا۔ جس طرح خارجی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب کافر ہوتا ہے۔ معتزلہ کا تجاوز یہ تھا کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب دونوں مرتبوں یعنی اسلام اور کفر کے درمیان پہنچ جاتا ہے۔ پھر اس قدر سخت اور معتصبانہ آراء کے بالمقابل مرجیہ نے اس قدر کمزور مؤقف اختیار کیا کہ ایمان کی موجودگی میں کسی بھی قسم کا گناہ نقصان نہیں دیتا۔
ان ہر دو طرح کی آراء کے درمیان اہل سنت والجماعت کا مؤقف ہے کہ گناہ کرنے سے انسان کا ایمان گناہ کی مقدار کے مطابق کمزور ہو تا ہے۔
3۔ معاملات میں حد سے تجاوز ہے۔ہر چیز کی حرمت کے متعلق سختی کرنا پھر اس کے بالمقابل یہ رائے قائم ہوگئی کہ جو چیز بھی محنت اور مال خرچ کرکے حاصل کی جائے وہ حلال ہے حتی کہ سود وغیرہ میں بھی اگر محنت شامل ہو تو یہ بھی حلال ہوجائے گا۔
ان دونوں طرح کی آراء میں درمیانی مؤقف یہ ہے کہ جو معاملات انصاف پر مبنی ہوں گے وہ حلال ہوں گے اور انصاف وہی ہے جو قرآن و سنت کی روشنی میں درست ہو۔