کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 157
خطرناک جرم کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لوگوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کر لیا۔ اگرچہ یہ کام مزاح سے کر رہے ہیں یا سنجیدگی سے کریں، کسی دنیاوی منصب سے محرومی کا خوف ہو یا کسی منصب کی امید ہو۔ لہٰذا ہر وہ انسان جو زبان اور عمل سے اسلام کا اظہار کرتاہو لیکن اس کے دل میں کفر ہو ایسا شخص منافق ہے، اگرچہ اس کی وجہ کوئی بھی ہو۔ دوسری آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان کیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد اگر کوئی شخص کفر کرے تو ایسے شخص کا عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ہاں ایسے شخص کے لیے گنجائش ہو سکتی ہے جس کو اس پر مجبور کیاجائے۔لیکن اگر کسی کو اختیار ہو چاہے وہ مذاح کی صورت میں کہے،یا وہ کسی مقصد کے حصول کے لیے کہے،یا وطن کے دفاع کے لیے کہے یا کوئی بھی وجہ ہو، وہ شخص کافر ہے۔ اللہ تعالیٰ صرف اس کفر کا عذر قبول کرتے ہیں جو شخص مجبور کیا جائے اور یہ شرط بھی ہے کہ اس کا دل پوری طرح ایمان پر مطمئن ہوتو ایسا شخص ان شاء اللہ مومن ہوگا،کافروں میں شمار نہ ہوگا۔ مجبوری تو صرف زبان اور اعمال کی صورت میں ہوتی ہے کہ انسان زبان سے کہنے پر اور عمل کرنے پر مجبور ہوتا ہے، لیکن دل کی حالت تبدیل کرنے پر انسان کو کوئی مجبور نہیں کر سکتا۔ کیونکہ دل کے عقیدے کا علم تو صرف اللہ کو ہوتا ہے، مجبوری تو صرف زبانی اقرار و عمل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اس بات کی وضاحت دوسری طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ جب کوئی شخص کفریہ کلمہ اس وقت کہتا ہے کہ جب وہ آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرتا ہو، یہ اس کا کفر ہے۔ دنیا سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کا تعلق دنیا کی زندگی سے ہو، اگرچہ وہ منصب ہے، مال و دولت ہے یا کوئی اور دوسری چیز، جو شخص دنیا اور اس کے اندر کسی بھی چیز کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے اور وہ اس عمل سے کفریہ عمل کرتا ہے تو یہ شخص کافرہے اگرچہ وہ کفر کو پسند کرے یا نہ کرے،کم از کم دنیا کو پسند کرنے کی وجہ سے وہ کافر ہوجائے گا۔