کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 156
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ﴾
(النحل:107)
’’یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں پسند کیا۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صراحت فرما دی ہے کہ یہ کفر اور عذاب اعتقاد یا جہالت یا دین سے نفرت یا کفر کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہوگا کہ اس کے اندر انہیں دنیا کی لذت نظرآئی جس کو انہوں نے آخرت پر ترجیح دی۔
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی نَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِہِ وَصَحْبِہٖ أَجْمَعِیْن،
آمین
……………… شرح …………………
فاضل مؤلف رغبت دلاتے ہیں کہ ان دو آیات پر خوب اچھی طرح غور کرنا چاہیے اور بار بار ان کی تلاوت کرنی چاہیے، ان کے معانی کو سمجھنا چاہیے کہیں انسان ان میں لا شعوری طور پر گرفتار نہ ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ کَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ۔﴾(التوبہ:66)
’’اب تم عذر نہ کرو تم نے ایمان قبول کرنے کے بعد کفر کیاہے۔ ‘‘
یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے قاری صحابہ کرام کے متعلق بد زبانی کی تھی۔ جب یہ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں شامل تھے تو اس وقت انہوں نے کفریہ کلمہ کہا، یہ بات ازراہِ مذاح کہی تھی سنجیدگی سے نہیں کہی، اس کے باوجود ان پر یہ سخت فیصلہ کیا گیا۔ ان کے بالمقابل اس شخص کی حالت کیاہوگی جو انسان سنجیدگی سے کوئی کفریہ کلمہ کہے اور اس کا دل اس پر پوری طرح مطمئن ہو اور اسے خطرہ یہ ہو کہ میرا دنیاوی عہدہ و منصب چھوٹ جائے گاتو یہ بہت