کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 155
کفریہ بات نکال دی تھی تو پھر سوچیں کہ اس شخص کا کیا حال ہوگا جو کسی کی دلجوئی کے لیے مال و منصب کے کم ہوجانے کے ڈر سے کفر کی باتیں یا اس پر عمل کرتا ہو؟ اس سلسلہ میں دوسری آیت یہ ہے: ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہ‘ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌO ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ﴾(النحل: 106۔107) ’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، وہ نہیں جو کفر پر مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے یہ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی سے عزیز سمجھا۔‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صرف اس شخص کو قابلِ معافی بتایا ہے جسے کفر پر مجبور کر دیا گیا ہو، مگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو۔ اس کے علاوہ باقی سارے لوگ کافر ہیں۔ خواہ انہوں نے ڈر کی وجہ سے کفر کا کلمہ اپنی زبان سے نکالا ہو یا کسی کی دلجوئی کے لیے، وطن یا اہل و عیال اور مال و متاع کی محبت میں کفریہ بات کہی ہو یا مذاق کے طور پر یا کسی اور مقصد کے تحت، بہرحال وہ کافر شمار ہوں گے، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت اس مسئلہ پر درج ذیل دو پہلوؤں سے دلالت کرتی ہے: 1۔ ﴿اِلَّا مِنْ اُکْرِہَ﴾’’وہ شخص جسے کفر پر مجبور کر دیا گیا ہو ‘‘کے جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف مجبور کئے گئے شخص کو کفر سے مستثنیٰ قرار دیاہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ صرف زبان یا عمل پر مجبور کیا جا سکتا ہے دلی اعتقاد پر کوئی بھی شخص کسی کومجبور نہیں کر سکتا۔ 2۔ مذکورہ آیت کی دلالت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا: