کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 135
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ لوگ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں۔‘‘[1] ایسی روایات جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص لا الہ الا اللّٰہ کا اقرار کرتا ہو اسے کافرکہا جائے گا نہ اس کے خلاف جنگ کی جائے گی اگرچہ کسی اعتبار سے وہ شرک بھی کرتا ہو۔ جواب:… یہ بہت بڑی جہالت ہے کہ صر ف لا الہ الا اللہ کہہ دینے سے انسان آگ کے عذاب سے بچ سکتا ہے۔کوئی شخص شرک سے پوری طرح اسی وقت پاک ہوگا جب وہ ہراعتبار سے شرک سے محفوظ ہو۔ اس کا جواب مختلف اعتبار سے دیا جا سکتا ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے جنگ کی اور انہیں قیدی بھی بنایا، حالاں کہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے تھے۔ صحابہ کرام نے بنو حنیفہ کے ساتھ جنگ کی حالانکہ وہ لوگ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے تھے، نیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بھی تسلیم کرتے تھے، نمازیں پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے تھے۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتے تھے۔ ایک الزامی جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ جو شخص قیامت کا انکار کرے اسے کافر سمجھ کر قتل کر دیاجائے،اگر کوئی شخص ارکانِ اسلام کو واجب نہ سمجھے اور اس کا انکار کرے تو اس پر بھی کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ کافر ہونے کی وجہ سے اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس صورتحال میں اگر کوئی شخص لا الہ الا اللہ کہے تو اسے کافر کیوں نہیں کہاجائے گا؟ توحید کے منکر سے کیوں نہیں لڑائی کی جائے گی ؟حالانکہ یہ دین کی بنیاد ہے اگرچہ وہ
[1] ) صحیح بخاری ، کتاب الایمان ، باب فان تابوا واقامو الصلوٰۃ ، ح:۲۵۔ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب الامر فی قتال اللّٰه ، ح:۲۲۔