کتاب: شرح کشف الشبہات - صفحہ 134
جب تک کہ وہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار نہ کر لیں۔ ‘‘
یہ نادان مشرک ان احادیث کا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کا اقرار کر لینے کے بعد آدمی جو بھی چاہے کرے، اسے کافر کہہ سکتے ہیں نہ قتل کر سکتے ہیں۔
ان نادانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہود بھی ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘پڑھتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے قتال کیا اور انہیں قیدی بنایا۔
بنو حنیفہ کے لوگ بھی ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ‘‘ کی شہادت دیتے تھے، نماز پڑھتے تھے اور اسلام کا دعویٰ بھی کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے قتال کیا۔
اسی طرح وہ لوگ بھی توحید کا اقرار کرتے تھے جنہیں علی رضی اللہ عنہ نے آگ سے جلایا۔
یہ جاہل اس بات کو تو مانتے ہیں کہ آخرت کا منکر یا اسلام کے کسی رکن کا منکر اگرچہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کا اقرار کرتا ہو، کافر اورمباح الدم ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلام کے کسی رکن کا انکار کرنے والے کو جب کلمہ ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ‘‘ کا اقرار کفر سے نہیں بچا سکتا تو ’’توحید‘‘ جو تمام انبیاء کے دین کی بنیاد ہے، کا انکار کرنے والے کو یہ کلمہ کیونکر بچا سکتا ہے ؟
……………… شرح …………………
شبہ 13:… نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کے اس عمل پر بہت تنقید کی تھی جب انہوں نے اس آدمی کو قتل کر دیا جس نے لا الہ الا اللّٰہ کہا تھا، آپ بار بار یہ جملہ دہراتے رہے کہ ’’کیا تم نے اسے لا الہ الا اللّٰہ کہنے کے بعد قتل کر دیا ہے ؟!‘‘ حتیٰ کہ آپ نے یہ بات اتنی دفعہ دہرائی کہ اسامہ کہنے لگے کہ میرے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ میں آج سے پہلے اسلام نہ لایا ہوتا۔[1]
[1] ) صحیح بخاری ، کتاب المغازی ، باب بعث النبی اسامۃ بن زیدٍ ،ح:۴۲۶۹۔ صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب تحریم قتل الکافر، ح:۹۶۔