کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 284
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کا زمانہ تئیس سال کے عرصہ پر محیط ہے،ہروحی جبریل علیہ السلام لیکر آئے،اور اس وحی میں ان کی حیثیت مفتی اور معلم کی ہوتی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک طالب اور سامع کی حیثیت سے اس وحی کا سماع فرماتےاورپھر صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمادیتے ۔
لیکن آج جبریل علیہ السلام انسانی شکل میں ایک بالکل جدا اورمنفرد شکل میں تشریف لائے،معلم بن کر نہیں بلکہ سائل بن کر،اور آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی موجودگی میں ایک معلم اور مفتی کے بطور ان کے سوالات کے جوابات ارشاد فرمارہے ہیں،اس کی کیا وجہ ہے؟آج جبریل علیہ السلام بطورِ معلم، تعلیم کیوں نہیں دے رہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیوں کررہے ہیں؟
اس کی بنیادی وجہ واللہ اعلم یہ ہوسکتی ہے کہ آج کی تعلیم کا سارا معاملہ صحابہ کرام کے سامنے ہورہا ہے ،لہذا جبریل علیہ السلام بطورِ معلم نہیں، بطورِ سائل پیش ہوئے،اس میں یہ تنبیہ ہے کہ لوگوں کے سامنے امورِ دین میں گفتگوکاحق صرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہے،لوگوں کی موجودگی میں جبریل علیہ السلام بھی بطورِ سائل ہی تشریف لائیں گے۔
یہ حدیث اس پہلو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ ومقام متعین کرتی ہے،جو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی امت کے افراد کے مابین تشریف فرماہوں توکوئی شخص خواہ وہ جبریل امین ہی کیوں نہ ہوبطورِ مفتی یا معلم پیش نہیں ہوسکتا،لوگوں کے سامنے یہ حق صرف امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
یہی فکرِ اہل حدیث ودعوتِ اہل حدیث ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی موجودگی میں کسی مجتہد یا مفتی کا فتویٰ یا قول نہیں چل سکتا،اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عمل یا پاکیزہ فرمان کے مقابلہ میں کسی کا قول وقرار پیش کرنا مطلقاً حرام اورناجائز ہے، اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے تمام لوگوں کو اور بالخصوص اصحابِ مذاہب کو اپنی روش اورکردار کا جائزہ لینا چاہئے،ضروری ہے کہ ہمارا منہج اور کردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا آئینہ دار ہو: