کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 282
سائل کون تھا؟اوریہی سوال امیر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے تقریبا تین دن بعد فرمایا تھا:(أتدری من السائل؟)کیا تم جانتے ہووہ سائل کون تھا؟ اس سے ثابت ہوا کہ شیٰخ اپنے طلبۃ العلم کو سمجھانے اور سکھانے کیلئے استفہامیہ اسلوب اختیار کرسکتاہے۔ (۲۷) جبریل امین علیہ السلام سائل بن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے تھے،اور ان کی آمد کامقصد لوگوں کو ان کا دین سکھانا تھا،اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:(فانہ جبریل أتاکم یعلمکم دینکم)یہ جبریل تھے،جوتمہارے پاس آئے تھے ،تمہیں تمہارادین سکھانے کیلئے۔(خود سیکھنے کیلئے نہیں کیونکہ انہیں یہ سب معلوم تھا) اس سے دوبڑے اہم نکتے حاصل ہورہے ہیں:ایک یہ کہ ایک شخص،لوگوں کی موجودگی میں انہیں کوئی چیز سکھانے اورسمجھانے کیلئے شیخ یا مفتی سے سوال کرسکتاہے،جیسا کہ جبریل علیہ السلامنے کیا۔ دوسرا یہ کہ کسی طالب علم کو خواہ ایک مسئلہ معلوم ہو،پھر بھی اس مسئلہ کی بابت اپنے شیخ سے سوال کرسکتاہے،شیخ کے جواب سے اگر دیگر حاضرین بھی مستفید ہورہے ہیں تو وہ سائل بھی ان کیلئے معلم کے مقام پر ہوگا،جیسا کہ جبریلعلیہ السلامکو باوجود سائل ہونے کے، معلم کہا گیا۔ (۲۸) حدیثِ جبریل میں مذکور تمام امور،دین قرار پائیں گے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:(یعلمکم دینکم) لیکن اس حدیث میں دین کابیان،بصورتِ اجمال ہے،بصورتِ تفصیل نہیں، تفصیل کیلئے کتاب وسنت کی طرف رجوع ضروری ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:(الدین النصیحۃ )یعنی: دین خیرخواہی کانام ہے(یہ بات آپ نے تین بار ارشاد فرمائی)اس کے بعد فرمایا:(للہ ولکتابہ