کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 281
گذرچکی ہے،فلیراجعإلیھا. اگر کوئی شخص یہ سوال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی دوسری علامات کا ذکر کیوں نہ فرمایا؟تو اس کاجواب یہ ہے کہ دوسری علامات بالکل واضح ہیں، جن کیلئے سوال کی حاجت نہیں ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام انتہائی جامع ومانع ہوتاتھا،لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختصراً ان دو علامات کے ذکرپر اکتفاء فرمایا،دیگر احادیث میں قیامت کی بہت سی علامات مذکورہیں،جنہیں کتبِ حدیث میں دیکھا جاسکتاہے۔ (۲۵) جبریل امین علیہ السلام اپنے سوالات کے مکمل جوابات لیکر روانہ ہوگئے،جس کاذکر حدیث میں ان لفظوں کے ساتھ ہے:[ثم انطلق ] یعنی: پھر جبریل چلے گئے،اس سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ فرشتے جب انسانی شکل میں متشکل ہوتے ہیں تو وہ چلتے بھی انسانوں ہی کی طرح ہیں، ورنہ فرشتوں کی اپنی خلقت پَروں کے ساتھ ہے،جن کے ذریعے ان کا آنا جانا ،اُڑان کے ساتھ ہوتاہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۰ۭ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ][1] یعنی:اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو (ابتداءً) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والااور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر (قاصد) بنانے والاہے، مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے ۔ (۲۶) اگر طلبۃ العلم پر کوئی علمی نکتہ مخفی رہ گیاہوتوشیخ کااز خود اس کی وضاحت کرنا ایک مستحسن امر ہے،وضاحت کیلئے وہ سوالیہ اسلوب بھی اختیار کرسکتاہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کے چلے جانے کے بعد حاضرین سے یہ سوال کیا تھا(أتدرون من السائل؟) کیا تم جانتے ہویہ
[1] فاطر:۱