کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 28
علم دے،یہ بیٹھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہوگا اور یہی نیت شیخ اوراس کے تلامذہ کو مستحضر ہونی چاہئے ۔البتہ یہاں ایک ادب کی نشاندہی ضروری ہے ، اور وہ یہ کہ جب شیخ اپنے طلبۃ العلم کو وقت دے اوران کے درمیان بیٹھے توطلبہ غیرضروری باتوں سے اپنے شیخ کا وقت ضائع نہ کریں اور بہت زیادہ سوالات سے گریزکریں،یہ اہم اورنفیس نکتہ بھی حدیث جبریل سے حاصل ہور ہا ہے ،چنانچہ انہوں نے اتنی دور سے تشریف لاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرورتِ دین کے تعلق سے محض چند سوالوں پر اکتفاء کیا اورواپس تشریف لے گئے۔
لہذاطلبۃ العلم اپنے شیخ کے وقت اورآرام کا پوراپوراخیال رکھیں ۔
اگر شیخ کی نشست کیلئے اونچے چبوترے یاکرسی وغیرہ کا اہتمام ہو تویہ بھی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،چنانچہ سنن ابی داؤد میں ابوذر غفاری اور ابوھریرہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے:
کان رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یجلس بین ظھراني أصحابہ،فیجی ء الغریب فلا یدری أیھم ھو حتی یسأل،فطلبنا إلی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم أن نجعل لہ مجلسا یعرفہ الغریب إذا أتاہ، قال :فبنینا لہ دکانا من طین،فجلس علیہ، وکنا نجلس بجنبتیہ۔
یعنی :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان(کسی امتیازکے بغیر) بیٹھا کرتے تھے حتی کہ اگر کوئی اجنبی آتا تووہ نبیعلیہ السلامکو پہچان نہ پاتا،اور اسے پوچھنا پڑتا (کہ تم میں نبیعلیہ السلامکون ہیں؟) تو ہم نے نبی علیہ السلام سے گزارش کی کہ آپ کیلئے ایک الگ (اونچی)نشست بنادیں تاکہ ایک اجنبی بھی آپ کو فوری پہچان لے ،چنانچہ ہم نے مٹی کا ایک چبوترہ بنادیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر تشریف فرماہوتے اورہم آپ کے اردگرد بیٹھاکرتے۔
اس سے ثابت ہوا کہ معلم کیلئے اونچی نشست (کرسی وغیرہ)کا انتظام مستحسن ہے؛تاکہ وہ پہچاناجاسکے اور تمام حاضرین اسے دیکھ سکیں۔