کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 279
کیلئے جدوجہد کی جائے ،اس کے باوجود اگر نقصان ہوجائے تو اسے اللہ تعالیٰ کی تقدیراور اس کا فعل قرار دیکراور یہ سوچ کر مطمئن ہوجائےکہ اس میں ضرور خیر کا پہلوموجودہے۔
واضح ہوکہ قوی مؤمن سے مراد وہ شخص نہیں جو جسمانی اعتبار سے طاقت ور ہو،بلکہ اس سے مراد قوی الایمان شخص ہے ۔
بہرحال شر اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہے ؛کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(والشر لیس إلیک)بلکہ مخلوقات کی طرف منسوب ہے کما فی قولہ تعالیٰ:[قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ]
ایک سوال باقی رہ گیا کہ مخلوقاتِ شریرہ کی خلق وتقدیر میں کیا حکمت ہوسکتی ہے؟
جواب:بہت بڑی حکمت ہے،اگر مخلوقاتِ شریرہ کا وجود نہ ہوتا تو ہم مخلوقاتِ خیر کی قدر نہ پہچان پاتے،مثال کے طورپہ بھیڑیا،چھوٹے سے جسم کا ایک جانور ہے،اونٹ کے مقابلےمیں تو بہت ہی چھوٹاہے، مگر وہ انسان کو کھاجاتاہے،جیسا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا: [وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَہُ الذِّئْبُ][1] یعنی: میں ڈرتاہوں کہ اسے (یوسف علیہ السلام)بھیڑیانہ کھاجائے۔
جبکہ اونٹ کبیر الجسم ہونے کے باوجود انسان کو نہیں کھاتا بلکہ ایک چھوٹا بچہ بھی اسے ہانک کر لےجاسکتاہے۔
اب یہاں اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ پرغورکیجئے،جواونٹ اور بھیڑیے دونوں کاخالق ہے، بھیڑیا جو ایک مخلوق ہے اس کے اندر موجود شر کا مادہ جب دیکھتےہیں تو اس سے بڑی مخلوق یعنی اونٹ کے اندر موجود خیر کے مادہ کی قدر معلوم ہوتی ہے،نیز حکمتِ الٰہیہ بھی سمجھ میں آتی ہے، اللہ تعالیٰ نے بھی اونٹ کے متعلق ہمیں تدبر کی دعوت دی ہے، فرمایا:
[1] یوسف:۱۳