کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 278
ایک حکمت یہ ہوسکتی ہے کہ اس شر کے ذریعے خیر کو پہچاناجائے، کہا جاتا ہے:وبضدھا تتبین الأشیاءیعنی:اشیاء،اپنی اضداد کے ساتھ عیاں ہوتی ہیں۔
دوسری حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شر کو دیکھ کر لوگ اپنے رب کی طرف لاچارہوں۔
تیسری حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لوگ سچی توبہ کی طرف آمادہ ہوجائیں۔
اسی لئے دنیا میں موجود شرور سے حفاظت کیلئے ہم صبح وشام اذکار کرتے رہتے ہیں،اور ایسے اوراد کا اہتمام کرتے ہیں جو ہمیں شرور سے محفوظ رکھنے کا سبب بن جائیں۔
لہذا اللہ تعالیٰ کا ہر فعل خیر ہے،بندہ اگر اس حقیقت کو دل وجان سے پہچان کر قبول کرلے تو ہرمقدور پر اسے تسلی حاصل رہے گی،اگر کسی مقدور کا ظاہر شر ہوگا تو وہ یہ یقین رکھے گا کہ اس کا انجام خیر ہی ہوگا۔
جو انسان اس طرح تقدیر کے ساتھ راضی ہوگیا وہ ہر غم سے نجات پاگیا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بہت ہی قابلِ غور ہے:فرمایا:
(المؤمن القوی خیر وأحب إلی اللہ من المؤمن الضعیف وفی کل خیر،إحرص علی ما ینفعک واستعن باللہ ولاتعجز،وإن أصابک شیٔ فلا تقل لو أنی فعلت کذالکان کذا ،فإن لو تفتح عمل الشیطان)[1]
یعنی:طاقت ور مؤمن،اللہ تعالیٰ کے نزدیک کمزور مؤمن سے زیادہ بہتر اورمحبوب ہے،سب میں خیر موجود ہے،تو اس چیز کی حرص کر جو تجھے نفع دے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر،اور عاجز اورکمزور نہ بن( اس کے بعد)اگر تجھے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس طرح مت کہہ:اگر میں نے یوں کرلیاہوتا تو یوں ہوجاتا؛کیونکہ اگر اگر کہنا ،شیطان کے عمل کو کھولتا ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفع بخش چیزوں کی حرص کی تعلیم دی ہے،چنانچہ اس
[1] صحیح مسلم:۲۶۶۴