کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 277
وقدر میں کوئی شر نہیں؛ کیونکہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت وحکمت سے صادر ہے،اورمحض شر تو شریر سے صادر ہوتاہے۔
اگر یہ کہاجائے کہ حدیث میں تو خیروشر دونوں کو تقدیر کہاگیاہے؟ تو اس کاجواب یہ ہے کہ شر تقدیر میں نہیں بلکہ مقدورات ومخلوقات میں ہے؛ کیونکہ تقدیر اللہ تعالیٰ کا فعل ہے وہ کیسے شر ہوسکتاہے؟
ایک مثال سے اس کی وضاحت پیش کی جاتی ہے:
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
[ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ][1]
یعنی: خشکی وتری میں فساد ظاہر ہوا، بوجہ اس کے جو لوگوں کے ہاتھوںنے کمایا۔
اس آیتِ کریمہ میں زمین میں رونما ہونےوالے فساد اور اس کے سبب کا ذکر ہے،(یہ فساد تقدیر میں لکھا ہواہے)آگے آیت کریمہ میں اس کی حکمت مذکور ہے،فرمایا:[لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ]یعنی:تاکہ لوگوں کو ان کی کچھ کرتوتوں کی سزا چھکائے،شاید کہ وہ دین کی طرف لوٹ آئیں۔
اب زمین میں ظاہر ہونے والے مصائب مثلاً:خشک سالی، فقر، بیماری وغیرہ تکلیف دہ امور ہیں،یہ کیوں رونما ہوئے؟یہ لوگوں کی بد اعمالیوں کی بناء پر رونما ہوئے۔
لیکن ان کا نتیجہ انتہائی خیر ہے،یعنی :لوگ کچھ سزا پاکر دین کی طرف لوٹ آئیں،تو اللہ تعالیٰ کا یہ امرِ مقدر اگرچہ من وجہ لوگوں کیلئے اذیت کا باعث ہے ،مگر انجامِ کار انتہائی بہترین ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تقدیر، اللہ تعالیٰ کافعل ہےجو شر نہیں ہے،اور مقدور جو امرِ مقدر ہے،خیر یا شر ہوسکتا ہے،مخلوق میں شر کا موجود ہونا کئی حکمتوں کی بناء پرہے:
[1] الروم:۴۱