کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 276
کی تکذیب کے مترادف ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قومِ نوح کے بارہ میں فرمایا:[كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِۨ الْمُرْسَلِيْنَ۝][1] یعنی:قومِ نوح نے تمام رسولوں کا انکارکردیا۔ حالانکہ انہوں نے صرف اپنے رسول نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تھی مگر ان کی تکذیب،تمام انبیاء کی تکذیب قرار دی گئی۔ (۱۸) یومِ آخرت کا اثبات وایمان بھی،ارکانِ ایمان میں شامل ہے،یومِ آخرت سے مراد قیامت کا دن ہے،جس میں اللہ تعالیٰ حساب وکتاب کیلئے تمام لوگوں کو اٹھائے گا،اس حساب کے نتیجے میں اہلِ جنت، جنت میں اور اہلِ جہنم، جہنم میں ٹھکانہ پائیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا بیشتر حصہ آخرت اور قیامت کی تفصیلات بیان کرنے میں صرف ہوا؛کیونکہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے انکار کی وجہ عقیدۂ آخرت قرار دی تھی،ان کے بقول مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایاجانا محال ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے واضح دلائل وبراہین کی روشنی میں عقیدۂ آخرت پیش فرمایا،کچھ دلائل سابقہ صفحات میں گذر چکے ہیں۔ (۱۹) تقدیر پر ایمان لاناخواہ وہ خیر ہویاشر،ارکانِ ایمان میں سےہے،تقدیر پر مکمل ایمان اس شخص کا قرار پائے گا جو ان چاروں مراتب کو کماحقہ قبول کرلے،جن کا گذشتہ صفحات میں،تقدیر کی بحث میں بیان ہوچکا ہے، وہ مراتب یہ ہیں:1علم2کتابت3مشیئت 4خلق، تفصیلات جاننے کیلئے گذشتہ صفحات میں مذکور تقدیر کی بحث کی طرف رجوع کیاجائے۔ (۲۰) حدیث کے سیاق سے یہ علم ہوا کہ تقدیر خیر بھی ہے اور شر بھی،شر کےتعلق سے وضاحت گذرچکی ،یہاں اتنا ضرور کہیں گے کہ شر تقدیر میں نہیں بلکہ مقدور میں ہے،جس کی وضاحت یوں ہے کہ تقدیر چونکہ اللہ تعالیٰ کے افعال کانام ہے ،لہذا وہ سب کے سب خیر ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:(والشر لیس إلیک)یعنی: شر تیری طرف منسوب نہیں ہے،لہذا اللہ تعالیٰ کی قضاء
[1] الشعراء:۱۰۵