کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 275
[جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَۃٍ][1] یعنی: (اللہ تعالیٰ) بنانے والاہے فرشتوں کو جو کہ پَروں والے ہیں، اپنے نمائندے۔ فرشتوں کا پروں والاہونا ان کے اجسام کی دلیل ہے۔ حدیث سے فرشتوں کے انتہائی وزنی ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:(اطت السماء وحق لھا أن تئط ما من موضع أربع أصابع إلا وفیہ ملک قائم للہ وراکع أو ساجد) یعنی:آسمانوں میں (فرشتوں کی کثرت تعدادکی بناء پر بہت زیادہ وزن کی وجہ سے) چرچراہٹ کی آوازیں سنائی دیتی ہیں،چنانچہ آسمانوں میں چار انگلیوں کے برابر جگہ خالی نہیں ملتی، مگر وہاں فرشتہ موجود ہے ،قیام کرتاہوایا رکوع کرتاہوا یا سجدہ کرتاہوا۔ اس کے علاوہ احادیث سے جبریلعلیہ السلامکے چھ سوپروں کا ثبوت ملتاہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ فرشتے محض ارواح یا عقول کا نام نہیں بلکہ باقاعدہ اجسام ہیں۔ کچھ لوگ تو فرشتوں کو نفسِ انسانی میں موجود خیر کی قوت قرار دیتے ہیںاور شیاطین کو نفسِ انسانی میں موجود شر کی قوت قرار دیتے ہیں،یہ قول سابقہ اقوال کے مقابلے میں بڑا باطل ہے۔ (۱۶) تمام آسمانی کتب وصحف خواہ ان کاذکر قرآن پاک میں موجود ہو یا نہ ہوپر ایمان لانا بھی ارکانِ ایمان میں سے ہے۔ کسی ایک کتاب کی تکذیب،تمام کتبِ سماویہ کی تکذیب قرار دی جائے گی۔ (۱۷) تمام انبیاء ومرسلین پر ایمان لانا بھی،ارکانِ ایمان میں سے ہے،اگر کوئی شخص صرف اپنے رسول پر ایمان لے آئے اور باقی تمام رسولوں کا انکار کردے تو اس کا اپنے رسول پر ایمان لانا بھی قابل قبول نہ ہوگا،بلکہ وہ شخص کافر قرار پائے گا،کسی ایک رسول کی تکذیب تمام انبیاء
[1] فاطر:۱