کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 274
اٰمَنَّا۰ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰكِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ۰ۭ] [1]میں ایمان اور اسلام ایک سیاق کے تحت اکٹھے مذکور ہیں لہذا دونوں میں فرق ہوگا،صرف ترجمہ دیکھ لینے سے ہی یہ فرق مفہوم ہوجائے گا۔
ترجمہ:کہا اعراب نےہم ایمان لے آئے،کہہ دو تم ایمان نہیں لائے ،بلکہ یہ کہوہم اسلام لے آئے،اب تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا۔
(۱۲) ایمان کے چھ ارکان ہیں،جن کا بیان پچھلے صفحات میں ہوچکا،ان ارکان کا فہم انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے کماحقہ خوف کی طاقت مہیا کرے گا۔
(۱۳) چونکہ ایمان کے چھ ارکان کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے،لہذا ان ارکان کا منکر کافر ہوگا،بلکہ ان میں سے کسی ایک رکن کا منکر بھی کافر ہوگا۔
(۱۴) ارکانِ ایمان میں سب سے مقدم رکن،ایمان باللہ ہے، یہ تمام معتقدات کا سردارہے،اصلِ دین ہے،ایک مکلف کیلئے سب سے پہلافریضہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی معرفت ہے،خواہ وہ توحیدِ ربوبیت ہو یا توحید الوہیت یا توحید اسماء وصفات۔جس شدت اور قوت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگی اسی قدر اللہ تعالیٰ کی طرف انابت واخبات میں اضافہ ہوتاجائے گا، اس کاخوف بڑھے گا،اس ذات پر توکل قائم ہوگا۔جس شخص کے ایمان باللہ میں کوئی کوتاہی پائی گئی اس کا کوئی عمل قابل قبول نہ ہوگا[ومن یکفر بالایمان فقد حبط عملہ]بلکہ ایمان کے دیگر ارکان کا قبول بھی قطعاً مفید نہ ہوگا۔وباللہ التوفیق
(۱۵) فرشتوں کااثبات معلوم ہوا ،ان پربھی ایمان لانا واجب ہے،کچھ لوگ فرشتوں کو محض عقول قرار دیتے ہیں اور کچھ بغیر جسم کے روح سمجھتےہیں،یہ دونوں قول باطل ہیں۔
حق یہ ہے کہ فرشتوں کے باقاعدہ جسم ہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
[1] الحجرات:۱۴