کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 272
دعوتِ دین کا نکتۂ آغازہے،اس لئے اسلام کی دعوت اور تعلیم ہر شیٔ پر مقدم ہے۔
(۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعریف میں پانچ امور کا ذکر فرمایا،انہی پانچ امور کو عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی حدیث میں ارکانِ اسلام قرار دیا گیا ہے،وہ پانچ امور حسب ترتیب یہ ہیں:
شہادتین،نماز،زکوٰۃ،رمضان کے روزےاور حجِ بیت اللہ۔
(۸) شہادتین کے بعد نماز کا ذکر ہے ،جو نماز کی اہمیت وفضیلت کی دلیل ہےاور اس امر کی متقاضی ہے کہ شہادتین کے بعد نماز ہی ہر رکنِ اسلام پر مقدم ہے۔
(۹) نماز کا ذکر (تقیم الصلاۃ)کے الفاظ کے ساتھ وارد ہے، جس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ نماز کو قائم کرنا ضروری ہے،محض پڑھ لینا کافی نہیں،اور نماز کےقائم ہونےکیلئے سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقہ کے مطابق اداکی جائے، اور یہ مبارک طریقہ نماز کے تمام افعال پر منطبق ہو،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:(صلوا کما رأیتمونی أصلی)
(۱۰) یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ ادا کرنا،رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا بھی ارکانِ اسلام میں سے ہے۔
اسلام کے پانچوں ارکان میں سے پہلے رکن یعنی (لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ )کی شہادت کا تارک بالاتفاق کافرہے،بقیہ ارکان کے تارک کے بارہ میں علماء کا اختلاف ہے،بعض علماء نے بقیہ ارکان کے تارک کوبھی کافر قرار دیا ہے،لیکن یہ قول ضعیف ہے،کچھ علماء تارکِ صلاۃ کی تکفیر کے قائل ہیں،جبکہ بیشتر علماء تارکِ صلاۃ کو کافر توکہتے ہیں مگر کفر سے مراد عملی کفر لیتے ہیں۔واللہ اعلم
واضح ہوکہ اگر ایک شخص نماز کے وجوب کا منکر ہےتو وہ بالاجماع کافر ہے،خواہ وہ عملی طور پہ نماز پڑھتاہو۔
(۱۱) حدیثِ جبریل سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور ایمان دو مختلف چیزیں ہیں؛کیونکہ