کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 25
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کے عقیدۂ فاسدہ کی حقیقت کھول دی اورانہوںنے شرحِ صدر کے ساتھ تائب ہوکر خوارج کے عقیدہ سے رجوع کرلیا۔ توگویا یہ بھی ایک بڑی فضیلت وسعادت ہے جو سفرِ حج یا عمرہ کے عظیم تر مقاصد کا اہم حصہ ہے،وﷲ ولی التوفیق۔ حدیث ابن عمر سے مستنبط چندآداب عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کے مذکورہ واقعہ میں،حسنِ ادب کے بہت سے مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں،چنانچہ دونوں تابعین (یحیی بن یعمراور عبید الحمیری) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے دائیں اوربائیں ہوجاتے ہیں اور اپنے شیخ کو وسط میں کرلیتے ہیں،جو ادب واحترام کا مظہر ہے،اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس طرح دونوں کواپنے شیخ کابرابر کا قرب حاصل رہے گا،جس سے ان کے جواب کا سماع اورفہم ممکنہ حدتک آسان ہوجائے گا۔ اسی طرح عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کو ان کا نام لیکر مخاطب کرنے کی بجائے کنیت پراکتفاء کیا،یہ بھی حسنِ ادب کے مظاہرمیں سے ہے۔ واضح ہو کہ ایک دوسرے کو اس کی کنیت سے مخاطب کرنے کا رواج ہمارے معاشرہ میں مفقود دکھائی دیتا ہے،جبکہ بلادِ عرب میں اب بھی لوگوںکی بیشتر مخاطبت کنیت کے ساتھ ہی ہوتی ہے،جوکہ تشریف وتکریم کا حسین مظہرہے۔ مذکورہ واقعہ سے یہ استدلال بھی درست ہوگا کہ شیخ اگر چل رہا ہو تو چلتے چلتے اس سے سوال کرنا صحیح ہے،اور شیخ کا چلتے چلتے جواب دے دینا بھی درست ہے۔اس میں وقت کے عدمِ ضیاع کا تأثر بھی موجود ہے،امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے کتاب العلم میں اسی نکتہ کے پیشِ نظر کچھ ابواب قائم فرمائے ہیں ،مثلاً: سواری پر کھڑے کھڑے فتویٰ دینے کابیان اور رمی الجمار کے موقع پرسوال کرنے اور فتویٰ دینے کا بیان وغیرہ۔