کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 140
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :( خوب قرآن پڑھو !کیونکہ ایسے لوگ آنے والے ہیں جو اس کے حروف کو اس طرح سیدھا کریں گے جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے ، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ،وہ فوری اجرت کے طلبگار ہونگے ، (آخرت کے ثواب کیلئے انتظار نہیں کریں گے) [1]
ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کا قول ہے : قرآن کو صحیح اور درست پڑھنا ہمیں اس کے حروف کے حفظ سے زیادہ پسند ہے۔ [2]
جنابِ علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس نے قرآن مجید کے ایک حرف کاانکار کیا گویا اس نے پورے قرآن کا انکار کیا۔[3]
[1] یہ حدیث صحیح ہے۔احمد(۵/۳۳۸)ابوداؤد(۸۳۱)ابن حبان(۱۸۷۶--موارد ) اسکی سند میں ضعف ہے البتہ اس حدیث کے شواہد ہیں سے یہ حدیث قوی ہوگئی ہے۔ایک شاہد جابر بن عبداﷲ کی حدیث ،احمد (۳/۳۹۷) ابوداؤد(۸۳۰) میں ہے،اوراس کی سند صحیح ہے۔دیکھیئے الصحیحہ: (۲۵۹)
[2] یہ اثر شدید ضعیف ہے ۔اس اثر کو ابن ا لأنباری نے الوقف والابتداء (۱/۲۰) میں ان الفاظ کیساتھ روایت کیا ہے۔ [لبعض اعراب القرآنِ اعجب الینا من حفظ بعض حروفہ]ترجمہ:[قرآن کو صحیح تلفظ سے پڑھنا ہمیں اسکے حفظ سے زیادہ پسند ہے۔]البتہ اس کی سند شدید ضعیف ہے ،کیونکہ اس کی سند میں جابر بن یزید الجعفی ہے جو کہ ضعیف ہے اور شریک القاضی ہے جو صدوق ہے اور بہت غلطیاں کرتا ہے اور اس کا حفظ بھی خراب ہوگیا تھا ۔ اورسند میں ا نقطاع بھی ہے۔ (تعلیق بدر البدر علی ا للمعۃ:۱۹)ابن قدا مۃ نے اس اثر کو البرہان(۴۴) میں ذکر کیا ہے۔
[3] اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے(۱۰/۵۱۳،۵۱۴) اور ابنِ جریرنے اپنی تفسیر (۵۶) میں شعیب بن الحبحاب کے طریق سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:کہ ابو العالیۃ کے پاس جب کوئی شخص قرآن پڑھتا تو وہ یہ نہ کہتے کہ اس نے غلط پڑھا ہے، بلکہ کہتے: میں اس لفظ کو یوں پڑھتا ہوں ۔شعیب بن الحبحاب کہتے ہیں میں نے یہ بات ابراھیم نخعی سے کہی تو انہوں نے کہا: کہ میرا خیال ہے کہ آپ کے ساتھی( یعنی ابو العا لیۃ)نے یہ بات سن رکھی ہے ’’جس نے قرآن کے ایک حرف کا انکار کیا اس نے پورے قرآن کا انکار کیا‘‘ اس کی سند صحیح ہے ۔ابن قدامۃ نے اس اثر کو البرھان (ص:۴۵) میں ذکر کیا ہے، اور علی رضی اللہ عنہ سے ایک اور اثر بھی ذکر کیا ہے کہ ان سے جنبی آدمی کے متعلق سوال کیا گیا کیا وہ قرآن پڑھ سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا : نہیں،ایک حرف بھی نہیں ۔