کتاب: حدیث جبریل - صفحہ 136
ترجمہ: یاد رکھو !اللہ ہی کیلئے ہے خلق اور امر۔ اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے ’’الأمر‘‘ کو خلق کا غیرقرار دیا ہے، جبکہ قرآن الأمر میں سے ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے : [وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا][1] ترجمہ:اوراسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے امر سے روح کو اتارا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: [ذٰلِكَ اَمْرُ اللہِ اَنْزَلَہٗٓ اِلَيْكُمْ۰ۭ][2] ترجمہ: یہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے جو اس نے تمہاری طرف اتارا۔ اور قرآن اس لیئے بھی غیر مخلوق ہے کہ قرآن کلام اللہ میں سے ہے ،اور کلام اللہ ، اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات غیر مخلوق ہیں ، لہذا قرآن غیر مخلوق ہے ۔ قرآن کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے اور کلام کی نسبت اسی کی طرف کی جاتی ہے جس نے اولاًوہ کلام کی ہو۔ اورقرآن کے اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لوٹ جانے کی دلیل یہ ہے کہ بعض آثار میں آیا ہے کہ آخری زمانہ میں قرآن مجید صحائف اور لوگوں کے سینوں سے اٹھا لیا جائے گا ۔ [3] اور یہ وہ کتابِ عربی ہے جس کے متعلق کفار نے کہا تھا : [لَنْ نُّؤْمِنَ بِھٰذَا الْقُرْاٰنِ ][4]
[1] الشوریٰ :۵۲ [2] الطلاق:۵ [3] یہ حدیث رسول اﷲ سے صحیح ثابت ہے۔چنانچہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی مرفوعاً حدیث ہے […لیسری علی کتاب اللہ عزوجل فی لیلۃ فلایبقی فی الأرض منہ آیۃ…الخ ترجمہ:کتاب اﷲ پرکوئی رات ایسی آئے گی کہ زمین پر کوئی ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی ۔ اس روایت کو ابن ماجہ(۴۰۴۹) اور حاکم(۴/۴۷۳) نے روایت کیا ہے۔حاکم فرماتے ہیں:یہ حدیث صحیح ہے اور شرطِ مسلم پر ہے ،الذھبی نے موافقت کی ہے۔شیخ البانی نے بھی الصحیحۃ (۸۷) میں ان دونوں کی تائید کی ہے، یہ روایت ابو ھریرۃ اور ابن مسعود سے موقوفاً صحیح ثابت ہے۔دیکھیئے :العقیدہ السلفیۃ فی کلام رب البریۃ (ص:۱۷۳،۱۷۴ [4] سبأ:۳۱