کتاب: حدیث ہرقل - صفحہ 77
’’إنما الناس کإبل مائۃ لاتکاد تجد فیھم راحلۃ‘‘[1]
لوگوں کی کثرت کی مثال تو ان سواونٹو ں کی سی ہے،جن کو آپ خریدیں، ایک زرخطیر خرچ کرکے ان کوپالیں پوسیں،کھلائیں پلائیں، لیکن جب تمہیں سواری کی حاجت ہو،تو کوئی بھی ان میں سواری کے قابل نہ ہو،ان کاکیافائدہ؟یہ کثرت! یہ جتھے!اور یہ اجتماعیت !لوگوں کی بھیڑبھاڑ!بوقت ضرورت دین کے کام کوئی نہیں آتا، تویہاں منہج کی صداقت چاہیے،صداقتِ منہج کے سچے اور مخلص حاملین،قلتِ تعداد کے باوجود امت کیلئے انتہائی کارآمد ہیں۔
عہدِ جاہلیت میں جھوٹ سے نفرت:
لہذا صداقت اتنی بڑی منقبت ہے کہ کفار قریش بھی اس بات کوجانتے تھے، وہ خائف ہیں کہ ہماری طرف جھوٹ منسوب نہ ہو، ہم اس سے بچیں، چنانچہ ابوسفیان نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت ہمارے دلوں میں انتہائی راسخ تھی اگرمجھے ڈر نہ ہوتا کہ میں کوئی جھوٹ بولوں اورمیرے ساتھی اس کی نشاندہی کردیں،اور تاریخ میں میرے نام پر وہ جھوٹ الاٹ ہوجائے، اوریہ جھوٹ میرے لئے ہمیشہ کیلئے ندامت اورذلت کی بات بن جائے تومیں اس موقعہ پر جھوٹ بول کرضرور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عیب جوئی کرتا،لیکن میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ایک لفظ بھی غلط نہیں کہونگا، ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں
[1] صحیح البخاری: کتاب الرقاق،باب رفع الأمانۃ،رقم الحدیث (۶۱۳۳) صحیح مسلم: کتاب فضائل الصحابۃ، باب قولہ ﷺ :الناس کإبل مائۃ، لاتجد فیھا راحلۃ،رقم الحدیث(۲۵۴۷)مسند احمد (۲/۱۳۹)