کتاب: حدیث ہرقل - صفحہ 224
حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تشریف فرماتھے،انتہائی دل برداشتہ ،بہت سے تفکرات دامن گیر تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی تلاوت فرمارہے تھے اور جنوں کی یہ جماعت محوِ سماعت تھی،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور تلاوت میں وہی تاثیر پائی جو موسیٰ علیہ السلام کے کلام میں ہوا کرتی تھی،اس پاکیزہ کلام کو سنتے ہی ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوگیا ،انہوںنے وہیں اسلام قبول کرلیا: [قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّہُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَــبًا۝۱ۙ يَّہْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ۝۰ۭ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَآ اَحَدًا۝۲ۙ ] [1] جن کہنے لگے کہ ہم نے ایک عجیب کلام سنا،جوصراط مستقیم کی ہدایت دیتا ہے، ہم اس پرایمان لے آئے، ہم نے توحید قبول کرلی اورشرک سے توبہ کرلی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اسلام قبول کرنے کی پہلی اسٹیج شرک سے توبہ اور بیزاری ہے،اور توحیدِخالص کا سچا فہم ہے۔ جنوں کےقبولِ اسلام کایہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں سے محبت کا مظہر ہے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کو اہلِ طائف نے دھتکار دیا تھا،اور جو انتہائی دل گرفتہ تھے،مگر اللہ تعالیٰ نے جنوں کی جماعت بھیج کر اور ان کے قبولِ اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دل جوئی فرمائی،گویا انہیں یہ تسلی دی کہ آپ کا مشن ہرگز ناکام نہیں ہے، ہدایت یا گمراہی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے،وہ اہلِ طائف جو آپ کی دعوت کے مخاطَب
[1] الجن:۱،۲