کتاب: حدیث ہرقل - صفحہ 152
خود قرآن سنا اورپھرہم نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔[1] معاشرتی ملامت کاخوف: میرے دوستواوربھائیو! سچے دین کی پیروی میں برادریوں ،قوموں اور آباء واجداد کی اندھی تقلیدکے بت سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، سچادین لوگ اس لئے قبول نہیں کرتے کہ برادری کیا کہے گی؟قوم کیا کہے گی؟ ابوطالب یہی کہتا کہتا مرگیا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دعوت پیش کررہے ہیں،وہ قبول نہیں کررہا، یہاں تک اس کوکہہ دیا کہ تم میرے کان میں کلمہ پڑھ لواورکوئی نہیں سن رہا،صرف میں سنوں گااور جب قیامت کا دن ہوگا، میں اس کلمے کوحجت بناکرتمہیں بخشوانے کی کوشش کروں گا، کہتا ہے کہ نہیں: ’’اخترت النار علی العار،بل أنا علی دین عبد المطلب‘‘ میںجہنم کی آگ برداشت کرلوں گا، لیکن قوم کے طعنے نہیں برداشت کرسکتا، میں تو عبدالمطلب کے دین پرجارہاہوں،یہ نعرہ لگایا اورروح قبض ہوگئی۔ ابوطالب کاانجام: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یا علی! إن اباک لفی ضحضاح من النار‘‘[2]
[1] صحیح البخاری: کتاب التفسیر،باب سورۃ والطور،رقم الحدیث(۴۵۷۳)صحیح مسلم: کتاب الصلاۃ،باب القر اء ۃ فی الصبح،رقم الحدیث(۴۶۳) [2] صحیح البخاری: کتاب فضائل الصحابۃ، باب قصۃ أبی طالب، رقم الحدیث(۳۶۷۲) صحیح مسلم: کتاب الإیمان،باب شفاعۃ النبی ﷺ لأبی طالب، رقم الحدیث(۲۱۰)