کتاب: حدیث ہرقل - صفحہ 139
جھوٹے اورمنافق کٹ کرالگ ہوگئے ،اوریہ بھی ایک برکت ہے۔ ساتھی تھوڑے ہوں، سچے اورکھرے ہوں، وہ کامیابی کی نوید ہیں اورساتھی لاکھوں ہو،نیتوں میں کھوٹ ہواور عقیدے میں خلل ہو،زبانوں پرجھوٹ ہو،توکثرت تعداد کاکوئی فائدہ نہیں۔
کثرت تعداد کاکوئی فائدہ نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’ إنما الناس کإبل مائۃ لاتکاد تجد منھم راحلۃ‘‘[1]
لوگوں کی کثرت کی مثال تو ان سواونٹوں کی سی ہے، جن کوآپ خریدیں، پالیں پوسیں، کھلائیں اورپلائیں اور جب آپ کو سواری کی ضرورت ہوتوان میں کوئی بھی سواری کے قابل نہ ہو،توکیافائدہ اس تعدادکا؟
توآزمائشوں سے یہ بھی مقصود ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمحیص چاہتاہے،اسلام کی صفوں میں نکھارپیدا کرناچاہتاہے۔
مخلص ساتھی:
اس لئے تو ایک موقع پرامیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے کہاتھاکہ میری خواہش ہے کہ جس کمرے میں بیٹھاہوں، یہ کمرہ ابو عبیدہ بن جراح جیسے لوگوں سے بھراہو،بس اتنے ہی
[1] صحیح البخاری: کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ، رقم الحدیث (۶۱۳۳) صحیح مسلم: کتاب فضائل الصحابۃ، باب قولہ ﷺ: الناس کإبل مائۃ لاتجد فیھا راحلۃ،رقم الحدیث(۲۵۴۷)مسند احمد(۲/۱۳۹)