کتاب: حدیث ہرقل - صفحہ 123
علی نوائب الحق‘‘[1] آپ مہمان نواز ہیں،آپ غریبوں کوکماکردیتے ہیں اور آپ لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیںاور آپ حق کے مددگارہیں، اس کیلئے جومدد کرنی پڑے،جوخرچ کرنا پڑے،آپ کرتے ہیں، جس شخصیت کے یہ اوصاف ہوتے ہیں، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا، یہ پہلی مواساۃ ہمدری آپ کو اپنے گھر میںملی، خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا کے انتقال کا صدمہ بڑاتکلیف دہ تھا،شعب ابی طالب کے بعد عام الحزن آیا،اس میں دوسرا صدمہ یہ ہوا کہ باہر آپ کی مددکرنے والاآپ کا چچاابوطالب تھا، وہ بھی اسی سال فوت ہوگیا، گھرکی مواساۃ خدیجہ نے سنبھال رکھی تھی، اورباہر مدد کرنے والا ابوطالب تھا، دونوں ایک ہی سال فوت ہوئے، اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفار قریش کو دعوت دیتے ہیں، جب دیکھا کہ یہ دوبڑے قوی قسم کے سہارے چلے گئے ہیں،تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے سہارےکی تلاش میں تھے جو دعوت میں تقویت کاباعث ہو۔ اہل طائف کودعوت: آپ نے سوچا کہ مکہ والے اس دعوت کو نہیں مانتے، تومکہ والوں کوبتاکرگئے کہ تم میرے اپنے ہواورمیرے چچے تائے ہو،تم نے میری دعوت کوقبول نہیں کیا، اب میں بیگانوں میں جاتاہوں، انہیں جاکردعوت دیتاہوں،چنانچہ آپ طائف چلے گئے،
[1] صحیح البخاری: باب کیف کان بدء الوحی إلی رسول ﷲ ﷺ،رقم الحدیث(۳)صحیح مسلم: کتاب الإیمان، باب بدء الوحی الی رسول ﷲﷺ،رقم الحدیث(۱۶۰)