کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 97
معاملے کو صاف کرالے، لیکن ہمارا تو یہ حال ہے کہ گناہ ہوتے ہیں اور گناہوں کو آگے بیان بھی کیا جاتا ہے، رات ہم نے ٹی وی پر فلاں ڈرامہ دیکھا، رات ہم نے فلاں شو دیکھا تھا، رات ہم نے فلاں محفل موسیقی اٹینڈ کی، رات ہم نے فلاں کام کیا، فلاں کام کیا، فلاں کلب میں گئے، یہ کیا اور وہ کیا، گناہوں کو بیان کیا جاتا ہے، کیسے مسلمان ہیں؟ کیسا عقیدہ اور کیسا منہج ہے؟ یہ اس انشراح ایمان کی نشانیاں ہیں کہ ہر نیکی آسان ہے اور گناہ پہاڑ کی طرح بوجھل محسوس ہوتا ہے، تو ہر قل کا یہ کہنا کہ ایمان کی مٹھاس جب دل میں شامل ہوتی ہے، تو پھر بندہ اس ایمان کو چھوڑ نہیں سکتا، اطاعت کے راستے کو چھوڑ نہیں سکتا، گناہوں کا راستہ اپنا نہیں سکتا، پھر وہ سچے ایمان پر، منہج پر، مشن پر، توحید پر، عقیدے اور عمل کی محبت پر قائم ہوجاتا ہے، یہ اس کا راستہ ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ یہ تو پہلے دن کی تربیت ہے، ان تین چیزوں کو صحیح معنی میں سمجھ لینا، ان کو قبول کر لینا، یہ پہلے دن کی تربیت میں شامل ہے، مگر اس سے آج ہم خالی ہیں، کیونکہ ہم نے عقیدہ اور منہج بالکل بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہرقل کا ساتواں سوال: ہر قل نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ابو سفیان سے جو سوال کئے، ان میں ایک سوال یہ تھا کہ ’’ ھل یغدر ؟‘‘ کیا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کبھی دھوکہ دیتے ہیں؟ ابو سفیان نے جواب دیا: ’’ لا یغدر ‘‘ وہ دھوکہ نہیں دیتے اور ساتھ ہی یہ بتایا کہ ’’ نحن منہ في مدۃٍ ما ندري ما ھو صانع فیھا؟ ‘‘ البتہ آج کل اس سے ہمارا ایک صلح کا معاہدہ ہے، دس سال جنگ نہ کرنے کا ایک میثاق اور ایک عہد ہے، اس معاہدے کے بارے میں وہ کیا کریں؟ اس کو نبھائیں یا توڑ دیں؟ یہ ہم نہیں جانتے، بہر کیف آج تک دھوکہ نہیں دیا، ابو سفیان کا کہنا ہے کہ’’ ما أمکنني أن أدخل کلمۃ غیر ھذہ