کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 81
طبیعت نہیں ہے، یہ راستہ بڑا صبر آزما ہے، اﷲ تعالیٰ تو ’’ کن ‘‘ کہہ کر دین اسلام کے غلبہ و استحکام پر قادر ہے، لیکن اﷲ رب العزت خاص طور پر اپنے پیاروں کو آزماتا ہے، ان کا امتحان لیتا ہے اور جب پوری طرح ان کو صابر پاتا ہے، تو پھر اپنی توفیق کے راستے کھول دیتا ہے، یقینا یہ سارے امور اﷲ تعالیٰ کی توفیق اور اس کے فیصلوں کے تابع ہیں کہ ایمان رفتہ رفتہ بڑھتا ہے، حتی کہ مکمل ہوجاتا ہے، ایسے بہت سے انبیاء گزرے ہیں، جن کے امر کے غلبے کا اﷲ نے فیصلہ نہیں فرمایا، جنہوں نے توحید سے اپنی دعوت کا آغاز کیا اور آخر دم تک ایک ہی دعوت دیتے رہے ، قوموں نے مان کے نہیں دیا۔ دعوتِ دین میں انبیاء کا منہج: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے آخرت کا یہ منظر دکھایا کہ کچھ انبیاء کے ساتھ پوری جماعتیں ہیں، کچھ انبیاء کے ساتھ بیس پچیس افراد ہیں، کچھ انبیاء کے ساتھ ایک یا دو افراد ہیں اور کچھ انبیاء بالکل اکیلے کھڑے ہیں۔[1] انہیں جو بھی عمر ملی، انہوں نے ’’ قولوا لا إلہ إلا اللّٰہ ‘‘ کی دعوت میں صَرف کر دی کہ اﷲ کی توحید کو مان لو اور قومیں نہیں مانیں۔ اﷲ رب العزت کو اپنے جس نبی کے مشن کا غلبہ منظور ہو، اس کے معاملے کو آہستہ آہستہ بڑھاتا ہے ، آزمائشوں کے مراحل سے گزار کر ایمان کا معاملہ پورا ہوجاتا ہے، لیکن جو انبیاء صرف توحید ہی پیش کرتے کرتے اﷲ سے جا ملے، وہ ناکام نہیں ہیں، وہ بڑے کامیاب ہیں، اس لئے کہ انہوں نے اپنے منہج کے ساتھ پوری طرح وفاداری کی، دین کا سودا نہیں کیا، کچھ لو اور کچھ دو، کچھ مان لو، کچھ منوالو، یہ تو
[1] صحیح البخاري: کتاب الطب، باب من لم یرق، رقم الحدیث (5420)