کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 68
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’إنما الناس کإبل مائۃ لا تکاد تجد فیہم راحلۃ ‘[1]لوگوں کی کثرت کی مثال تو ان سو اونٹوں کی سی ہے، جن کو آپ خریدیں، ایک زر خطیر خرچ کر کے ان کو پالیں پوسیں، کھلائیں پلائیں، لیکن جب تمہیں سواری کی حاجت ہو، تو کوئی بھی ان میں سواری کے قابل نہ ہو، ان کاکیا فائدہ ؟ یہ کثرت ! یہ جتھے! اور یہ اجتماعیت! لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ! بوقت ضرورت دین کے کام کوئی نہیں آتا، تو یہاں منہج کی بڑی صداقت چاہیے۔ عہدِ جاہلیت میں جھوٹ سے نفرت: لہٰذا صداقت اتنی بڑی منقبت ہے کہ کفار قریش بھی اس بات کو جانتے تھے، وہ خائف ہیں کہ ہماری طرف جھوٹ منسوب نہ ہو، ہم اس سے بچیں، چنانچہ ابو سفیان نے کہاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عداوت ہمارے دلوں میں اس طرح راسخ تھی کہ اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ میں کوئی جھوٹ بولوں اور میرے ساتھی اس کی نشاندہی کر دیں، تو پھر تاریخ میں میرے نام پر وہ جھوٹ الاٹ ہوجائے، یہ تو میرے لئے بڑی ندامت اور ذلت کی بات ہوگی، لہٰذا بندہ بڑا سوچ سمجھ کر بولے، کسی موقع پر وہ جھوٹا قرار نہ پاجائے، کیونکہ جھوٹ کی یہ تہمت انتہائی بری تہمت ہے، ابو سفیان نے کہا کہ میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ایک لفظ بھی غلط نہیں کہنا، ایک لفظ بھی جھوٹ نہیں کہنا، عداوت، غصہ بہت ہے اور کینہ بہت ہے، وہ سارے زخم ان کو یاد تھے، جو بدر میں انہیں پہنچے ، ہمارے ستر سردار جنہیں میدان بدر میں قتل کر دیا گیا، ان میں سے ایک ایک یاد آرہا تھا، لیکن میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ سچ بولنا ہے، جھوٹ نہیں بولنا۔
[1] صحیح البخاري: کتاب الرقاق، باب رفع الأمانۃ، رقم الحدیث (6133) صحیح مسلم: کتاب فضائل الصحابۃ، باب قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الناس کإبل مائۃ، لا تجد فیھا راحلۃ، رقم الحدیث (2547) مسند أحمد (2/139)