کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 54
تھے اور اس کے دو سال بعد آٹھ ہجری میں جب کفارنے معاہدہ توڑ دیا ،پھر اﷲ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار قریش پر حملہ کر دیا اور مکہ فتح ہوا، تو اس سفر میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار مجاہدین تھے، یعنی آج سے دو سال پہلے پندرہ سو تھے اور دو سال کے بعد دس ہزار ہوگئے ۔ لوگوں کا اسلام قبول کر کے مدینے آنا اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا،یہ صرف دعوت کا نتیجہ ہے ۔ تو صحابہ کہتے ہیں کہ یہ اصل فتح ہے، کیونکہ ہماری دعوت کا راستہ کھل گیا ہے اور لوگ اپنے گھروں سے نکل کر مدینے آرہے ہیں اور مدینے کی حدود وسیع ہو رہی ہیں۔ کسی کافر کا اسلام قبول کرنا: اسی لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ إسلام رجل واحد أحب إلي من قتل ألف کافر ‘‘[1]کہ ایک شخص کا اسلام قبول کرنا، میرے نزدیک ایک ہزار کافر کو قتل کرنے سے بہتر ہے۔ یعنی میری تلوار سے ایک ہزار کافر قتل ہوں، اس سے بہتر ہے کہ میری دعوت سے ایک کافر اسلام قبول کرلے، قتل ہو کر کافر نے جہنم میں جانا ہے اور اسلام قبول کر کے جنت میں جانا ہے اور یہ چیز بہتر اور افضل ہے ۔اس لیے سب سے اونچا مقام دعوت دین کا مقام ہے۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا واقعہ: اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ ایک کافر کسی غزوہ میں لڑ رہا تھا، مسلمانوں کو شہید کر رہا تھا، اس کی اسامہ بن زید سے مڈ بھیڑ ہوگئی، دونوں کی تلواروں کا تبادلہ ہوا، آخر اسامہ بن زید اس پر کنٹرول پانے میں کامیاب ہوگئے، تلوار کے ساتھ اس پر وار
[1] رواہ ابن إسحاق في المغازي (الروض الأنف: 1/ 301، فتح الباري: 7/370)