کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 46
خلاف نہ کسی کو اکسائیں گے اور نہ کسی کی مدد کریں گے، یہ ایک بنیادی شق تھی۔ چنانچہ اسی مدتِ صلح کے دوران یہ قافلہ مکہ سے شام کی طرف گیا، جب سے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا، کفار قریش کے قافلے بند ہو چکے تھے اور تجارت موقوف ہوچکی تھی ۔ابو سفیان کا اپنا قول ہے: ’’ حبستنا الحرب ‘‘ کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگوں نے ہمارا کچومر نکال دیا تھا اور ہم مفلوک الحال ہوچکے تھے۔ صلح حدیبیہ کے فوائد: ادھر اسی دوران ثمامہ بن اثال مسلمان ہوگئے، انہوں نے عیسائیت کو چھوڑ دیا اور اسلام قبول کر لیا، ثمامہ رضی اللہ عنہ وہ شخص تھے، جو یمن سے ساری گندم خرید لیتے تھے اور پھر مختلف علاقوں میں سپلائی کیا کرتے تھے، مکہ میں بھی ثمامہ رضی اللہ عنہ ہی گندم بھیجتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے مکہ کی ترسیل بند کردی،[1] اہل مکہ فاقوں کا شکار ہوگئے، وہ خود بھی صلح کی طرف آمادہ تھے، چنانچہ جوں ہی یہ صلح طے ہوگئی، تو اہل مکہ نے اپنا تجارتی قافلہ شام کی طرف بھیجا، یوںیہ صلح اہل مکہ کے لیے دنیاوی اعتبار سے ایک بہتری کا پیغام تھی اور اہل اسلام کے لیے، اہل مدینہ کے لیے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے بھی یہ صلح ایک بہتری کا پیغام اور بنیاد تھی، مکہ والوں کے نزدیک اس لحاظ سے کہ ان کے تجارتی قافلے شروع ہوگئے، راستے پرامن ہوگئے اور صلح کا معاہدہ تحریر ہوگیا، اب انہیں اپنے کسی قافلے پر حملے کا خدشہ نہیں تھا اور مسلمانوں کے لیے بھی یہ صلح ایک نوید مسرت تھی، ایک عظیم خوشخبری اور بشارت تھی، جس کی کئی وجوہات ہیں، یہ وجوہات بڑی قابل غور ہیں، جس سے صحابہ کا منہج واضح ہوتا ہے۔
[1] صحیح البخاري: کتاب المغازي، باب وفد بني حنیفۃ و حدیث ثمامۃ بن أثال، رقم الحدیث (4114) نیز دیکھیں: فتح الباري (8/87)