کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 42
وہ لوگ انہی باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا، اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے، جب ہرقل نے (سارے حالات) سن لئے تو کہا کہ جا کر دیکھو وہ ختنہ کئے ہوئے ہے یا نہیں؟ انہوں نے اسے دیکھا تو کہا کہ وہ ختنہ کیا ہوا ہے، ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا، تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا یہ ہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں، جو پیدا ہو چکے ہیں، پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا، پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا، ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں) آگیا، اس کی رائے بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہے۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو اپنے حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر لئے گئے، پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا، اور کہا: ’’اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لیے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقا چاہتے ہو، تو پھر اس نبی( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ‘‘! (یہ سننا تھا کہ) پھر لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے (مگر) انہیں بند پایا، آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہوگیا، تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا میں نے جو بات کہی تھی، اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو وہ میں نے دیکھ لی، تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہوگئے۔ بالآخر ہرقل کی آخری حالت یہ ہی رہی۔ ابو عبداﷲ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان، یونس اور معمر نے بھی زہری سے روایت کیا ہے۔