کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 38
فحاصوا حیصۃ حمر الوحش إلی الأبواب، فوجدوھا قد غلقت، فلما رأی ھرقل نفرتھم، وأیس من الإیمان، قال: ردوھم علي، وقال: إني قلت مقالتي آنفا أختبر بھا شدتکم علی دینکم، فقد رأیت، فسجدوا لہ ورضوا عنہ، فکان ذلک آخر شأن ھرقل۔‘‘ رواہ صالح بن کیسان ویونس و معمر عن الزھري۔ ہم کو ابو الیمان حکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہیں اس حدیث کی شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی، انہیں عبیداﷲ بن عبداﷲ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عبداﷲ بن عباس سے ابو سفیان بن حرب نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ہرقل (شاہ روم) نے ان کے پاس قریش کے قافلے میں ایک آدمی بلانے کو بھیجا اور اس وقت یہ لوگ تجارت کے لیے ملک شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور ابو سفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا۔ جب ابو سفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچے، جہاں ہرقل نے دربار طلب کیا تھا، اس کے گرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء ،و زراء و امرائ) بیٹھے ہوئے تھے، ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابو سفیان کہتے ہیں کہ میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں، (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (ابو سفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کی پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابو سفیان سے اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات پوچھتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے، تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (ابو سفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی، وہ یہ کہ اس شخص کا خاندان تم لوگوں میں کیسا ہے؟ میں نے کہا وہ تو بڑے اونچے عالی نسب والے ہیں، کہنے لگا اس سے