کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 294
کہتے ہیں کہ فلاں وقت فصد کرنا چاہیے اور فلاں وقت نہیں کرنا چاہیے، حدیثوں میں بھی بعض جگہ آیا ہے اس قسم کے اثرات تو ہیں، لیکن ’’ من غرس في نجم کذا کان کذا ‘‘ قسم کے سعادت و نحوست کے اثرات نہیں ہیں۔ ’’ ما من نجم إلا ولد فیہ الطویل والقصیر والدمیم وحسن الصورۃ ‘‘ یہ سب باتیں لا یعنی اور لغو ہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کی جائے تو اس کا کیا جواب ہے کہ ایک ہی متعین وقت میں بے شمار انسان اس دنیائے فانی میں جنم لیتے ہیں، ان کے حالات و کیفیات طبائع ایک دوسرے سے نہیں ملتے، اگر نجوم کا مسئلہ صحیح ہو تو پھر ایک ہی وقت میں پیدا ہونے والوں کے حالات یکساں ہونے چاہئیں، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں ایسا نہیں ہے۔ فارابی کی تحقیق: فارابی علم نجوم میں بڑا ماہر ہے، وہ بھی کہتا ہے کہ ان کے جو حروف حارہ اور باردہ ہیں، اگر حروف باردہ کو حارہ اور حارہ کو باردہ بنا دیا جائے، تو نتیجہ وہی برآمد ہوگا، جو ردو بدل نہ کرنے کی صورت میں نکلنا تھا، یعنی کبھی غلط اور کبھی صحیح، نجومی خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سے جو غلطی ہوجاتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے حساب پورا نہیں لگایا ہوتا، اس سے بجز اس کے کیا نتیجہ نکالیں کہ ان کی باتیں بے حقیقت ہوتی ہیں۔ امام بخاری کا مقصد: امام بخاری کا اس حدیث کو لانے کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہر قل کاہن تھا، کاہنوں کا تعلق شیاطین کے ساتھ ہوتا ہے، شیاطین اس وقت رک گئے، جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی، وہ تو ایک نفس الامری بات تھی۔