کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 289
میں مکتوب ارسال فرمائے: ’’ أسلم تسلم ‘‘ مسلمان ہو جاؤ، بچ جاؤ گے، ورنہ راہ نجات کی دوسری اور کوئی سبیل نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام تھی، مخصوص قوم، خاص علاقے اور متعین زمانے کے لیے نہیں تھی، صرف عرب قوم کے لیے نہیں تھی، بلکہ تمام دنیا کے تمام انسانوں کے لیے تھی، گویا آپ کی دعوت عالمگیر ، ہمہ گیر اور جامع تھی۔
بعض لوگ بعض آیات سے استدلال کر کے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت صرف عرب قوم کے لیے اور ایک مخصوص دور کے لیے تھی، یہودی بھی یہ کہتے ہیں کہ آپ امّیوں کے نبی ہیں، حالانکہ نہ یہ استدلال درست ہے اور نہ یہود کی بات صحیح ہے، یہودی آپ کی نبوت کا اقرار کرتے تھے، لیکن آخر میں یہ کہہ دیتے تھے کہ امّیوں کے لیے ہے، ابن صیاد نے بھی جب آپ نے اس سے پوچھا تھا کہ تو مانتا ہے کہ میں نبی ہوں؟ اس نے ’’ أنت نبي الأمیین‘‘ کہا تھا،[1] اس کا مطلب یہ تھا کہ اہل کتاب کے لیے نہیں، ابن صیاد یہودی تھا۔
یہودی انبیاء کے حالات اچھی طرح جانتے تھے، اسی بنا پر انہیں علم تھا کہ آپ نبی ہیں، بخت نصر نے جب یہودیوں کا قلع قمع کیا تو بچے کچھے کچھ یہودی مدینے کے گرد و نواح میں آکر آباد ہوگئے تھے، یہاں آکر انہوں نے مالی لحاظ سے اپنی چودھراہٹ قائم کر لی تھی اور یہاں تک دعویٰ کرنے لگے تھے کہ ہم جدی پشتی یہاں آباد ہیں، ریشہ دوانیوں کی وجہ سے بااثر لوگ بن گئے تھے۔
قرآن مجید کی بے شمار آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عام تھی، ارشاد باری ہے:
[1] صحیح البخاري: کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي…، رقم الحدیث (۱۲۸۹) صحیح مسلم: کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ذکر ابن صیاد، رقم الحدیث (۲۹۳۰)