کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 284
انہیں بیہقی وقت کہا ہے، شاہ صاحب کے ہم عصر ہیں، ان کے شاگرد ہیں، مرزا مظہر جان جاناں ان کے پیرو مرشد ہیں، مجددی طریقہ کے پیرو ہیں، ان کی کتاب کا نام تفسیر مظہری ہے، اپنے مرشد کے نام پر مظہری نام رکھا تھا، قیّم طریقہ احمدیہ کہتے ہیں کہ میں دیر تک بزرگوں کی خدمت میں رہا، خود میں نے بھی بڑا مجاہدہ کیا، اب مجھے معلوم ہوا کہ اب میں مرگیا ہوں، یعنی نفس اب مرا ہے، اب مجھے کوئی سلام کہے تو میں کہتا ہوں کہ میں مر گیا ہوں، اب مجھے سلام کیوں کرتے ہو؟ اس حالت تک پہنچ گئے، کہتے ہیں ان کا پیر مر گیا، مراقبہ میں بیٹھ گیا، کسی نے کہا مرنے کے بعد تم استفادہ نہیں کر سکتے، کسی اور کے پاس جاؤ زندہ سے استفادہ ہونا چاہیے۔ اہل دربار کا ردِ عمل: پھر ہر قل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا مکتوب گرامی پڑھا، خط کے پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے پاس شور و غل زیادہ ہوگیا، ابو سفیان کے ساتھی اس شور کو نہ سمجھ سکے کہ کیا ہے؟ کیونکہ وہ رومی زبان میں شور تھا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان رومیوں نے سمجھا کہ ہرقل سب باتوں کا ذکر کر رہا ہے، کہیں مسلمان ہی نہ ہوگیا ہو، ہرقل غالباً یہ باتیں اس لئے سنا رہا تھا کہ ان کو تسلی ہوجائے یا یہ مقصد ہو کہ ان کا رد عمل دیکھا جائے کہ کس قسم کا مظاہرہ کرتے تھے؟ ابو سفیان کہتا ہے کہ پھر ہمیں دربار سے باہر نکال دیا گیا۔ ابو سفیان کہتا ہے: ’’ قد أمِر أمر ابن أبي کبشۃ ‘‘ ابن ابی کبشہ کا معاملہ تو بڑا عظیم ہوگیا، بادشاہ تک اس سے ہراساں اور خوف زدہ ہیں، ابو سفیان نے یہ تعجب کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ابی کبشہ کیوں کہا؟ ابن ابی کبشہ اس لئے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ کے چچا کا نام ابو کبشہ تھا، اس نے اس کی طرف نسبت کر دی، بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم