کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 266
جیسے کعب اسے ’’ کِعَاب‘‘ بھی کہہ دیتے ہیں، جمع کا صیغہ، اس سے سارے افراد مراد ہوتے ہیں، ’’ أریسیین‘‘ کی صورت میں یہ معنی ہوجائے گا کہ جتنے کاشت کار ہیں، سب مراد ہیں۔ اہل کتاب کو دعوت: پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات لکھیں، اس میں اختلاف ہوگیا کہ 6ھ ؁ میں یہ آیتیں اتری تھیں یا نہیں؟ بعض کہتے ہیں کہ آل عمران کے ابتداء سے یہاں تک آیات 9ھ ؁ میں اس موقع پر نازل ہوئی تھیں، جب عیسائیوں کا وفد حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، اس لحاظ سے گویا اہل کتاب بھی اس میں داخل ہیں۔ { قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ } [آل عمران: 64] اس واسطے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اپنی طرف سے لکھا ہے، گویا قرآن کی آیت نہیں، اور پھر اﷲ تعالیٰ نے انہی الفاظ میں آیات نازل فرما دیں، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو لفظ بولے تھے، وہی اﷲ تعالیٰ نے نازل فرما دئیے، اگر بعینہ نہیں تھے، تو قریب قریب ملتے جلتے الفاظ تھے،[1]یہاں تو بالکل یہی الفاظ ہیں، اس لئے بعض کہتے ہیں کہ آیت پہلے اتری تھی، کیونکہ آگے جو الفاظ آرہے ہیں: { فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ} [آل عمران: 64] یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ { قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ } اﷲ تعالیٰ کے الفاظ ہیں، {فَاِنْ تَوَلَّوْا } [آل عمران: 64] اگر وہ پھر جائیں، تو { فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا } [آل عمران: 64] تم یہ کہو کہ گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔
[1] صحیح البخاري: أبواب القبلۃ، باب ما جاء في القبلۃ، رقم الحدیث (۳۹۳) صحیح مسلم: کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر رضي اﷲ عنہ (۲۳۹۹)