کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 261
کیونکہ یہ سلام متارکہ ہوتا تو {ساستغفر لک ربي} نہ فرماتے، سلام متارکہ کا مفہوم تو یہ ہوتا ہے کہ جاؤ بھئی تمہیں سلام! یہ نوعیت ہی دوسری ہے، اس لیے ضرورتاً یا اخلاقی پہلو پیش نظر ہو، تو سلام کی ابتداء کر سکتا ہے، جیسا کہ ایک دفعہ عبداﷲ بن مسعو رضی اللہ عنہ ایک مجوسی کے ساتھ سفر کر رہے تھے، جب الگ ہوئے، تو انہوں نے السلام علیکم کہا، کسی نے کہا یہ تو مجوسی تھا، اسے سلام کیوں کر رہے ہو؟ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا یہ حق صحبت ہے، اتنی دیر تک مصاحبت سفر رہی ہے، السلام علیکم اس لئے بھی کہا کہ فرشتے وغیرہ بھی ساتھ ہوتے ہیں، آدمی ان کا ارادہ بھی کر لیتا ہے، اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ کافر کو بھی اخلاقی طور پر یا ضرورت کے پیش نظر سلام کہہ دے، تو کوئی حرج نہیں، اس سے محبت ہی سمجھی جاتی ہے، یہ لفظ اشاعت محبت کے لیے ہے، یہ کہنے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے: { لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً } [آل عمران: 28] ’’ایمان والے مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست مت بنائیں اور جو ایسا کرے گا، وہ اﷲ کی طرف سے کسی چیز میں نہیں مگر یہ کہ تم ان سے بچو کسی طرح بچنا۔‘‘ { تَتَّقُوْا } سے اس طرف اشارہ ہے کہ اس قسم کی دوستی اور رواداری جائز ہے، اگر اس کے شر سے بچنا ہو اور السلام علیکم کہہ دے، تو کوئی حرج اور مضائقہ نہیں۔ ابن قیم کہتے ہیں: ’’ إن سلمت فقد سلّم الصالحون، وإن ترکت فقد ترک الصالحون‘‘[1]
[1] زاد المعاد (۲/۳۸۸) یہ امام اوزاعی رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔