کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 246
فرمایا کہ اسے پیسے دے دو، چاندی ذرا جھکا کر دینا، یہ سن کر وہ دوکاندار حیران ہوا اور پوچھنے لگا کہ یہ کون صاحب ہیں جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ذرا جھکا کر دو؟ ایسی بات آج تک کسی گاہک نے نہیں کی، صحابی نے کہا تجھے پتہ نہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اس نے کھڑا ہو کر آپ کے دست مبارک کو بوسہ دینا چاہا، آپ نے ہاتھ کھینچ لیا،[1] مطلب یہ تھا کہ تم مجھ سے ڈر گئے ہو یا احترام کرنا چاہتے ہو، میں ایک عورت کا لڑکا ہوں ، جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی، آپ کا مطلب یہ تھا کہ میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں کہ تم خوف زدہ ہو گئے اور ہاتھ چومنے کو تیار ہوگئے ہو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کا بوسہ دینے سے روک دیا، کیونکہ اس طرح ذرا سی نرمی سے آہستہ آہستہ پھر عادت پڑ جاتی ہے۔ پیروں کی رعونت: بعض پیر ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان سے کوئی مصافحہ کرنا چاہے، تو ہاتھ اوپر نہیں کرتے، بلکہ ہاتھ نیچے رکھتے ہیں، تاکہ مصافحہ کرنے والا جھک کر مصافحہ کرے، گویا ایسے لوگوں کے دل و دماغ میں رعونت اور تکبر ہوتا ہے کہ ہم اونچے رہیں اور دوسرے ان سے نیچے رہیں، اگر یہ لوگ خود چارپائی پر بیٹھے ہوں، تو دوسروں کو نیچے فرش پر بٹھاتے ہیں۔ تعظیم میں احتیاط: طاعت اور تعظیم میں ہر چیز کو غور و فکر سے دیکھنا چاہیے، بعض اوقات ایک ہی چیز ہوتی ہے ، کبھی وہ عبادت بن جاتی ہے اور بعض وقت عبادت نہیں ہوتی، اسی طرح
[1] المعجم الأوسط (۶/۳۴۹) مسند أبي یعلیٰ (۱۱/۲۳) اس کی سند ضعیف ہے، دیکھیں: مجمع الزوائد (۵/۲۱۲) فیض القدیر (۴/ ۱۸۸) الفوائد المجموعۃ للشوکاني (ص: ۱۹۰)