کتاب: شرح حدیث ہرقل سیرت نبوی کے آئینے میں - صفحہ 233
اوروں کو بھی (تابع کر دیا) جو بیڑیوں میں اکٹھے جکڑے ہوئے تھے، یہ ہماری عطا ہے، سو احسان کر، یا روک رکھ، کسی حساب کے بغیر۔‘‘ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جن کو پکڑ لیا، جو آپ کی نماز خراب کرنے آیا تھا، آپ نے فرمایا ’’ لولا دعوۃ أخي سلیمان ‘‘ اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی، تو میں اسے باندھ دیتا، میرا ارادہ تھا کہ اسے ستونوں سے جکڑوں اور تم اسے جکڑا ہوا دیکھتے، لیکن سلیمان صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا یاد آگئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی جناب سے تسخیرِ جنات حضرت سلیمان صلی اللہ علیہ وسلم کی تخصیص ہے، میں نے اس شوریدہ سر جن پر اپنی روحانی قوت کے بل بوتے پر قابو پایا، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مدد تو نہیں ہے، جس طرح حضرت سلیمان صلی اللہ علیہ وسلم کو تھی، ایسا نہ ہو کہ دوسرے شیاطین مجھے اذیت پہنچائیں یا میرے اہل و عیال کو تکلیف دیں یا اہل ایمان کو تکلیف دیں۔ اس واسطے میں نے اسے چھوڑ دیا باندھا بھی نہیں، حالانکہ وہ جن بڑا سرکش تھا، اس نے شرارت بھی کی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز توڑ دے، اس کے لئے ایک انگارا بھی لایا تھا کہ اسے آپ پر پھینک دے اور آپ کی نماز ٹوٹ جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے ’’ أعوذ بااللّٰه منک ‘‘ بھی پڑھا، وہ پیچھے نہ ہٹا۔ ’’ ألعنک بلعنۃ اللّٰه ‘‘ کہا، پھر بھی پیچھے نہ ہٹا، پھر ’’ أمکنني اللّٰه منہ ‘‘ اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دیا، ’’ فذعتہ ‘‘ پھر میں نے اس کا گلہ دبایا، اس وقت مجھے اپنے بھائی سلیمان صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا یاد آگئی اور میں نے اسے باندھے بغیر ہی چھوڑ دیا،[1] اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ ان سے مدد نہیں لینی چاہیے۔
[1] صحیح البخاري: أبواب العمل في الصلاۃ، باب ما یجوز من العمل في الصلاۃ، رقم الحدیث (۱۱۵۲) صحیح مسلم: کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب جواز لعن الشیطان في أثناء الصلاۃ والتعوذ منہ وجواز العمل القلیل في الصلاۃ، رقم الحدیث (۵۴۱)